کالم

’’ نجات کے دن قریب آرہے ہیں‘‘

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
ہماری قومی سیاست دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ بظاہر سیاستدانوں کا ایک گروہ حزب اقتدار اور دوسرا حذب مخالف ہے لیکن اصل تقسیم کے خدوخال کچھ اور ہیں۔ایک طرف جناب آصف علی زرداری اور ان کے ساتھی ہیں اور دوسری جانب عوام‘ فوج اور عدلیہ ہے۔عوام اپنے دکھوں اور مصیبتوں کے تابوت کندھوں پر اٹھائے ہر روز ماتم کناں رہتے ہیں۔عوام کو تازہ ترین لاش ملی ہے۔آرزوتھی کہ سی این جی مہنگی نہ ہو لیکن اس خواہش کا دن دیہاڑے قتل ہوگیا۔ سی این جی مالکان‘ ٹرانسپورٹرز اور حکومت تینوں جیت گئے۔ عوام ہار گئے۔ جس مہنگائی کے باعث عورتیں بچے اور بوڑھے سڑکوں پر نکلے تھے اور جس چودہ فیصد اضافے کا بہانہ بنا کر سی این جی والوں نے عوام سے ساتھ کھڑا ہوجانے کی اپیل کی تھی‘ وہ مہنگائی جوں کی توں رہی۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ستر پیسے فی کلو کمی کردی گئی۔ایسا سنگین مذاق اور مذاق کے خالقان پر خدا کی لعنت ہو۔ ویگن والوں نے کرائے بڑھا دیئے اور سارا بوجھ غریب کی جیب بلکہ جان پر آن پڑا۔ اب نہ احتجاج ہے نہ ناراضگی کمانے والے خوب کما رہے ہیں۔کاش کہ سی این جی سٹیشن پر کام کرنے والے عملہ کی تنخواہ ہی بڑھ پاتی۔وہ بیچارے خواہ مخواہ گلے پھاڑتے رہے۔ لوگوں کی گاڑیوں پر پتھر پھینکتے رہے۔دھوکہ ہی دھوکہ ہے۔جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔امیر پھر امیر تر ہوا اور غریب غربت کی دلدل میں مزید دھنس گیا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں انتہاء کی طبقاتی تفریق کے باوجود خونی انقلاب کیوں نہیں آتا۔ یہ سوال ہی غلط ہے۔کیونکہ خون تو ہر طرف بہہ رہا ہے۔اس خون کو سنبھالنے والے ’’انقلابی‘‘ نہیں ہیں۔خون ضائع جارہا ہے۔دوسرا سبب یہ کہ پاکستان کے لوگوں نے ابھی تک امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑا نہیں۔انہیں ملک کے قومی اداروں خصوصاً عدلیہ اور فوج پر اب بھی امید ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسی راہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے قدرے بہتر لوگوں کی حکومت وجود میں آسکے۔ خواب فروش بھی بہت ہوشیار ہیں۔کوئی نہ کوئی سہانا خواب پاکستانی عوام کے دل و دماغ کو اسیر ضرور کر لیتا ہے۔آج کل عمران خان ایک ’’مسیحا‘‘ کے طور پرخواب بن کر ہماری لاتعلق ہوتی ہوئی نئی کی آنکھوں میں سما رہے ہیں۔ انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ تحریک انصاف برسراقتدار آکر تمام تر سماجی ‘معاشی اور سیاسی ناانصافیوں کا قلع قمع کردے گی۔وہ امید کی ڈوری سے بندھے ہیں اور آئندہ انتخابات تک اس ڈوری کو تھامے رکھیں گے۔
بات امید کی ہے تو ایک اور امیدپیدا ہوگئی ہے۔شدید ترین دباؤ کا ایک اثر مرتب ہوگیا ہے۔ گھیراؤ اور ہانکے نے جناب زرداری کو مجبور کردیا ہے اور انہوں نے میاں محمد نوازشریف کے ’’ریسکیو پلان‘‘ کو تسلیم کر لیا ہے۔فوری انتخابات پر بالآخر کام شروع ہوگیا ہے۔ گو کہ سانپ کے ڈسے عوام رسی سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں اور انہیں یہ شدید خطرہ ہے کہ فروری میں سینٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد جناب زرداری قومی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد سے منحرف ہوجائیں گے‘ لیکن ایک دروازہ کھلا ہے ‘ تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا تو ہے۔!
میرے دفتر میں کام کرنے والا اسسٹنٹ دانش خوش ہے کہ زرداری جارہا ہے۔’’نہیں سرجی‘سینٹ وینٹ کو چھوڑیں الیکشن ہونے دیں پھر دیکھیں کہ زرداری کہیں نظر ہی نہیں آئے گا۔سرجی‘ زرداری ٹولے سے نجات کے دن قریب آرہے ہیں‘‘ جب سے گیس اور پٹرول مہنگا ہوا ہے دانش بھی اس حکومت کی مخالفت میں سینہ پھلا پھلا کر تقریریں کرتا پھرتا ہے۔
عہد حاضر کے دور اندیش تجزیہ کار محترم نسیم انور بیگ کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں پانچ سالہ حکومت چل ہی نہیں سکتی۔قومی اسمبلی کی معیاد چار برس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بھی یہی ثابت کیا ہے۔موجودہ وزیراعظم سب وزرائے عظام پر سبقت لے گئے ہیں‘لیکن اپنی مدت کو پورا کرنے کی ضد میں اس وزیراعظم نے عوام کوتھکا دیا ہے۔ایسی حکمرانی اور انداز حکمرانی سے تو بہتر ہے کہ چار سال بعد عزت کے ساتھ گھر چلے جاتے اور نئے انتخابات کرا دیتے۔ہوسکتا ہے کہ بار بار انتخابات کرانے سے واقعتاً بہتر لوگ برسراقتدار آجائیں اور پاکستان کے لئے کسی حقیقی نجات کی راہ نکل آئے!!

Leave a Reply

Back to top button