کالم

ماڈرن پاکستان کے سپر پاکستانی

نذر حافی
اکیسویں صدی کو سائنس و ٹیکنالوجی ،فنون و ایجادات اور شعور اور آگاہی کی صدی کہا جاتا ہے۔ اس صدی میں حضرت انسان کے ایسے بہت سارے خواب پورے ہو گئے ہیں جنہیں وہ پوری تاریخ بشریت میں پورا نہیں کرسکا تھا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سالوں کے فاصلے مٹا دیے ،میلوں کی مسافتیں ختم کر دیں اور کائنات کے سینے میں دفن حقائق کا کھوج لگا لیا ۔کئی صدیوں تک غلامی کی زندگی بسر کرنے والےانسانوں نے بھی اپنی گردنوں سے غلامی کا طوق اتار پھینکا اورمشرق اور مغرب میں حریّت ،آزادی،انصاف،عدالت اور انسانی حقوق کی صدائیں گونجنے لگیں۔دنیا میں نت نئے علمی و فکری نیزسائنسی و فنی انقلابات رونما ہوئے اوران گنت ایجادات منظر عام پر آئیں۔
علم وشعورکے اس دور میں جب ہم اپنے پیارے وطن "پاکستان” پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ہم آبی ذخائر سے لیکر ایٹم بم تک سب کچھ ہونے کے باوجود فقیروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم ایک آزاد اسلامی ملک کے باشندے ہونے کے باوجودصدیوں پرانے کسی غلام ملک کے باسیوں کی طرح دھکے کھاتے پھررہےہیں۔ہمارے ہاں ایک طرف فرقہ واریت اور علاقائیت کا ناسور رِس رہاہےاور دوسری طرف آٹے، چینی اور بجلی کے بحران نےلوگوں کی کمر توڑ رکھی ہے ۔
آپ ہمارے ملک کے سب سے بہترین کمپوٹرائزڈ ادارے "نادرا” میں چلے جائیں۔پہلے تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دفتری امور معطل رہیں گئے،بجلی آجائے تو سسٹم ہینگ ہو گا اور خداخدا کرکے اگرکسی روزسسٹم کام شروع کر دے تو آپ لوگوں کو دوقطاروں میں بٹاہوادیکھیں گے۔ایک قطار میں وہ غریب پاکستانی کھڑا ہوگاجس کے پاس ڈبل اور ٹرپل فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں،جس کا لباس پسینے اور دھوپ کے باعث اس کے بدن کے ساتھ چپک گیاہے ،اسےصرف ایک شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آج بھی مہینوں انتظار کرناپڑتاہے اور ہفتوں تک نادرا کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ دوسری قطار میں آپ کو ایک دوسری نسل کے پاکستانی نظر آئیں گے۔ یہ وہ ہیں جو بہترین لباس پہنتے ہیں،لذیز کھانے کھاتے ہیں،اپنی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ان کے لباس سے شاہانہ انداز ٹپکتاہے اور ان کی انگلش پر ملکہ وکٹوریہ بھی رشک کرتی ہے۔یہ الگ لائن میں کھڑے ہوتے ہیں،غریب پاکستانیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ان کے شایانِ شان نہیں۔یہ جتنی فیس بھی جمع کرائیں کم ہے اس لئے یہ فوری طور پر اپنا کام نکلواتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔یہ ماڈرن پاکستان کے سپر پاکستانی ہیں،انہیں کہیں پر بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
اس کے بعد آپ نظام تعلیم پر نظر ڈالیں وہاں پر بھی آپ کو دو قطاریں نظر آئیں گی۔ایک میں غریب لوگ اپنے بچوں کو لئے کھڑے ہونگے۔یہ اردو میڈیم اور ٹا ٹ سکولوں کی خاطر دھکے کھانے والوں کی قطار ہوگی جبکہ دوسری طرف فر فر انگلش بولنے اور انگلش میں گالیاں دینے والے حضرات نظر آئیں گے۔جو بظاہر بہت مہذب، ڈسپلن کے پابند،ٹشو پیپر سے بار بار پسینہ صاف کرتے رہنے کے عادی ہیں۔یہ عام سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھا کر ان کا مستقبل تباہ نہیں کرنا چاہتے۔یہ پیسہ لگاتے ہیں اور اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھاتے ہیں۔یہ ماڈرن پاکستان کے سپر پاکستانی ہیں۔لہذا انہیں یہاں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
آپ پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر نگاہ ڈالیں تو وہاں بھی آپ کو دو قطاروں میں لوگ نظر آئیں گئے۔ایک قطار میں وہ لوگ ہیں جو ایک ایک روپے کی خاطر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ ڈالتے ہیں ۔جو صبح سے شام تک جو کچھ کماتے ہیں وہ اتنا نہیں ہوتا کہ اس سے پیٹ بھر کر کھاناکھاسکیں،ان کے گھروں میں مریض مہینوں پڑے کراہتے رہتے ہیں۔ان کے بچے یا تو سکول جاتے ہی نہیں اور اگر جائیں تو اخراجات پورے نہ ہو سکنے کے باعث جلدی سکول چھوڑ کر کام کاج شروع کر لیتےہیں۔
دوسری قطار میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے بازار سے کبھی کوئی چیز خریدی ہی نہیں،نوکر جاتا ہے خرید کر لے آتا ہے،ماما بچوں کو سکول لے جاتی ہے،ڈرائیور گاڑی چلا لیتا ہے اوران کے ہاں مالی پودوں کو پانی دیتا ہے۔یہ ماڈرن پاکستان کے سپر پاکستانی ہیں لہذا ان پر پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
آپ پاکستان کی سیاست پر نگاہ ڈالیں یہاں پر بھی آپ کو دو قطاروں میں کھڑے لوگ نظر آئیں گئے۔پہلی قطار میں وہ لوگ ہیں جو صرف انگوٹھالگانے کے لیے ہیں یہ جب تک زندہ رہتے ہیں بیلٹ پیپر پر انگوٹھا چھاپتے رہتے ہیں او جب یہ مر جاتے ہیں تو ان کے بچے ان کے مشن کو جاری رکھتے ہیں ۔جبکہ دوسری قطار میں وو لوگ ہیں جو صرف اور صر ف ووٹ لیتے ہیں۔ان کے بچے کیمرج اور آکسفورڈ میں پڑھتے ہیں۔یہ لوگ جب تک زندہ رہتے ہیں پاکستانیوں پر حکو مت کرتے ہیں اور جب مر جاتے ہیں تو کیمرج اور آکسفورڈ سے آکر ان کے بچے ان کی جگہ حکو متی کرسیوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔یہ ماڈرن پاکستان کے سپرپاکستانی ہیں لہذا ان کا مستقبل پاکستان کی سیاسی صورتحال سے متاثر نہیں ہوتا۔
آپ پاکستان کی دینی دنیا پر نگاہ ڈالیں یہاں بھی آپ کو دو قطاریں نظر آئیں گی۔ایک قطار میں عام مسلمان ہےجو دین کی خاطر ہر قربانی دینے لے لیے ہر وقت بے قرار ہے۔جسے کبھی داتا دربار میں اور کبھی بری امام میں خود کش حملوں میں اُڑا دیا جاتا ہے۔جسے کھبی مساجد میں اور کبھی امام بارگاہوں میں گولیوں سےبھون دیا جاتا ہے ۔جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو سادہ لوح مسلمانوں کے بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں،فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکاتے ہیں لیکن اپنے ساتھ باڈی گارڈ لیے پھرتے ہیں۔
یہ خدا کے دین پر دوسروں کے بچوں کو تو قربان کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے بچے مغربی ممالک میں حصول تعلیم میں مصروف نظر آتے ہیں۔یہ بھی ماڈرن پاکستان کے سپر پاکستانی ہیں ،خود کش حملے اور دہشت گرد ان کا کچھ نہیں بگاڑ تے۔
اپنے ملک میں امن عامہ کی صورتحال پر نگاہ دوڑائیں تو یہاں بھی آپ کو دو قطاریں نظر آئیں گی۔ایک قطار میں وہ لوگ ہیں جنہیں مارا جا رہا ہے،جن کا خون پولیس کا پیٹ بھرتا ہے،اخباروں کی سرخیوں میں چھپتا ہے،وکیلوں کی فائلوں میں کھپتا ہے اور کچھ عرصے تک جلسے جلوسوں کی زینت بننے کے بعد ہمیشہ کے لیے رزقِ خاک بن جاتا ہے۔
دوسری قطار میں وہ لوگ ہیں جو اس خون کی سرخی کو اپنے چہرے پر مل کر پریس کانفرنسیں کرتے ہیں،بیانات داغتے ہیں،لوگوں کو سڑکوں پر آنے کے لئے ابھارتے ہیں اور اپنی پارٹی کے پرچم کو شہیدوں کا کرتہ بنا کر کوچہ و بازار میں نکل آتے ہیں۔یہ بھی ماڈرن پاکستان کے سپر شہری ہیں،یہ لاشوں پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔لہذا لاشیں گرنے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ابھی ۲۸فرورری ۲۰۱۲کو کوہستان میں ۱۸ مسافروں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔اس سے پہلے ۲۰ستمبر ۲۰۱۱ کو کوئٹہ میں ایک بس کو روک کر ۲۶ مسافروں کا خون بہایا گیا۔ میڈیا میں بتائے گئے اعداد وشمار نیز پولیس کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳سے لیکر ۲۰۱۲ تک پاکستان میں ۹ہزار سےزائد شہری دہشت گردی کے شکار ہوئے۔جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیاد ہ ہے۔یادرکھئے صرف ۲۰۱۱ میں ۴۰۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ سال صرف کراچی میں تقریبا ۱۸۰۰ افراد کو موت کی گھاٹ اتارا گیا۔
صرف ۲۰۱۱میں تین ارب ڈالر کی ملکی برآمدات متاثر ہوئیں۔دو ارب ڈالر سے زائد کی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہو سکی اور ایک ارب ستر کروڑ سے زائد کا انفراسٹر یکچر تباہ ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر ۵۰ کھرب ۳۷ ارب روپے کا نقصان ہوا۔اس کے علاوہ اس جنگ میں اب تک مجموعی طور پر ۳۲ہزار شہریوں اور اور پینتیس سو سرکاری اہلکاروں کا خون بہایا گیا۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۱کے دوران پاکستان میں سیکورٹی فورسزکے آپریشنز،دہشت گردانہ حملوں ،لسانی تشدد،قبائلی جھگڑوں ،ڈرون حملوں اور سرحد پار سے حملوں کے ۲۹۸۵ واقعات ہوئے۔
جبکہ اسی سال ۷۵ڈرون حملوں میں۵۵۷افراد ہلاک اور ۱۵۳ افراد زخمی ہوئے۔معشیت کے اعتبار سے یہ بدترین سال تھا،سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۱میں مختلف وجوہات کی بناء پر۴․۲ ارب کا سرمایہ سٹاک میں ضائع ہوا۔پورا سال ۱۶ سے لیکر ۱۸گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی رہی۔اسی طرح سی این جی گیس سٹیشن ۵،۵ دن بند رہے۔بے روزگاری سے مجبور ہوکر کئی افراد نے خودکشی کی،اغواء برائے تاوان نیزسٹریٹ کرائمز کا کاروبار عروج پر رہا ۔
اس ساری صورتحال سے عام قطار میں کھڑا ہونے والا عام پاکستانی بری طرح متاثر ہواہے جبکہ سپر پاکستانیوں کی تجوریاں اس وقت بھی بھری ہوئی ہیں۔ وہ ہر جگہ پیسے لگا رہیں ہیں اور اپنا کام چلا رہیں ہیں۔
ہمارے ہاں آج یہ دونوں طبقے، دوہرا معیار ،دوغلاپن اور دو قطاریں ہر جگہ موجود ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعدملت پاکستان کی سماجی زندگی برہمن اور اچھوت کی طرح دو طبقوں میں تقسیم ہے۔دونوں طبقوں کے مفادات،اہداف اورانداز رہن سہن میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔”پاکستان کامطلب کیالاالہ الااللہ ” کا نعرہ نہ ہی تو کہیں سنائی دیتاہے اور نہ ہی اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
امیر اور غریب کے درمیان برہمن اور اچھوت کی طرح موجود یہ فرق پاکستان کو مزید کمزور کررہاہے۔ اگر ہمارا حافظہ ہمارا ساتھ دے تو ہمیں یاد ہو گا کہ ۱۹۷۱ءمیں بھی اسی فرق نے بنگلہ دیش کو ہم سے جدا کیا تھا۔
اگر ہم نے اس ملک کو بچانے کے لئے اس دوغلے پن اور دوہرے معیار کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا دشمن ایک مرتبہ پھر بلوچی کو پنجابی کے،سندھی کو پختون کےاورکشمیری کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے کی سوچ رہاہے۔
آج ہر باشعور پاکستانی کو ظلم ،عدم مساوات اور دھونس دھاندلی کے خلاف میدان میں اترناچاہیے ۔ہمیں معاشرتی طبقہ بندی کو ختم کرنے ،معاشی ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑنے اور مذہبی تنگ نظری، فرقہ واریّت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مسلسل جدوجہد کرنی ہوگی۔ہمیں بلاتعصب اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان سے طبقاتی تقسیم کو مٹانے،معاشی استحصال کے خاتمے نیز پاکستان کو بچانے کے لئے حضرت امام خمینی کے نقشِ قدم پر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔ہمیں اس رہبر کی قیادت کی ضرورت ہے جس کی بصیرت معاشرتی اونچ نیچ کو برابر کر دے،جس کی تکبیر کی ضربت زر وجواہر کے بتوں کو گرا دے،جسکی صدائے انقلاب فرعونوں کی ناک رگڑ دے،جس کا پیغام حق واشنگٹن اور ماسکو کے درو دیوار ہلا دے اورجس کے پرچم انقلاب کے سائے میں مسلمانوں کے درمیان سارے اختلافات دم توڑ دیں۔
پاکستانی ملت کو افکار امام خمینی سے آشنا کئے بغیر اور سیرت خمینی پر چلائے بغیر موجودہ حالات سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماڈرن پاکستان کا سپرپاکستانی کبھی بھی فکرِ امام خمینی کو عام کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔اس لئے کہ اگر فکرِ امام خمینی عام ہوجائے تو سپر پاکستانی کو عام پاکستانی کی طرح عام قطار میں ہی کھڑا ہونا پڑے گا،شہنشاہِ ایران اور اس کے حواریوں کی طرح پائی پائی کا حساب دینا پڑےگا ،اسے فرقہ واریت کی سزا بھگتنی پڑے گی اور جب تک عام پاکستانی نمک سے روٹی کھاتاہے اورمٹی پر سوتاہے ،اس وقت تک سپر پاکستانی کو بھی۔۔۔
دینِ اسلام اور انقلاب اسلامی ایران نے ماضی میں بھی غریبوں،محکوموں اور مجبوروں کو ہر طرح کے مظالم سے نجات دلائی تھی اور آج بھی ہماری نجات صرف اور صرف دینِ اسلام اور انقلابِ اسلامی کی پیروی میں ہے۔

Leave a Reply

Back to top button