جھنڈے مختلف ہیں یانظریات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نذر حافی
میرے دو دوست ہیں۔دونوں بلا کے انتہا پسند ہیں۔ایک اپنے آپ کو کامریڈ،روشن فکر اور پتہ نہیں کیا کیا کہتا ہے جبکہ دوسرا اپنے آپ کو عالم دین،پابند شریعت، مجاہد اسلام اور طالبان کہتا ہے۔بظاہر یہ دونوں ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں،ایک اپنے خطوط میں مجھےٹالسٹائی،لینن،فرائیڈ اوراسٹالین کے افکار سے آشنا کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دوسرا مجھے قرآن و حدیث کے رنگ میں رنگنے کے درپے ہے۔ایک کا یہ کہنا ہے کہ انسان ہی اصل ہے اور انسانیت ہی مکتب ہے، اس کے نزدیک پاکستان بنا کر علامہ اقبال اور قائد اعظم نے انسانیت کے ساتھ خیانت کی ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک مسلمان ہی اصل ہے اور اسلام ہی مکتب ہے،اس کے مطابق قائد اعظم اور علامہ اقبال نے پاکستان بنا کر اسلام کے ساتھ غداری کی ہے۔میرے کامریڈ دوست کا کہنا ہے کہ وہ فلسفے کا با با ہے اور اس کے فلسفے کے مطابق انسانیت کے سوا باقی سب مکاتب ڈھونگ ہیں۔میرے طالبانی دوست کے مطابق وہ دین کا عالم ہے اور اس کے علم و فضل کے مطابق اس کے مسلک کے سوا باقی سب مسالک کفر والحادہیں۔
میرے روشن فکر دوست کے نزدیک پاکستانی قوم اس لیئے منحرف ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر مذہبی جراثیم پائے جاتے ہیں اور یہ ساری زندگی دین کا دم بھرتے ہیں۔اپنے بچوں کے نام محمد ،علی اور حسین رکھتے ہیں۔اپنے مرحومین کی یاد بنانے کے لیے قرآن خوانی اور نعت خوانی جیسے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔یہ اپنے اکابرین کو مسٹر اور سر کہنے کے بجائے "رحمۃ اللہ” اور علیہ السلام کہتے ہیں جبکہ میرے طالبانی دوست کے مطابق پاکستانی قوم اس لیئے گمراہ ہے کہ وہ اس کے بتائے ہوئے دین پر چلتی ہی نہیں۔اس کے دین کے مطابق مرحومین کے لیے فاتحہ پڑھنا اور قرآن خوانی کرنا سب بدعت وشرک ہے۔میرا کامریڈ دوست بھی قرآن و حدیث کی من مانی تاویلیں کرتا ہے اور صرف اپنی ہی تاویلوں کو درست سمجھتا ہے. یہی روش میرے طالبانی دوست کی بھی ہے۔قارئیں محترم اگر آپ سارے تعصبات کو اپنی آنکھوں سے ہٹا دیں اور غیر جانبدار ہو کر اپنے ہاں پائے جانے والے نام نہاد روشن فکر اور طالبانی فکر کا موازنہ کریں تو آپ دیکھیں گئے کہ بظاہر دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن درحقیقت دونوں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔دونوں کا فکر ی جمود ایک جیسا ہے اور دونوں اسلام ،پاکستان اور نظریہ پاکستان کے دشمن ہیں۔المختصر دونوں اپنے سوا باقی سب کو غلط،منحرف اور گمراہ سمجھتے ہیں۔جب ہم ان دوطرفہ انتہا پسندوں کاباہمی موازنہ کرتےہیں تو اس وقت ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی،بےروزگاری ،لوڈ شیڈنگ اور قتل و غارت کا یہ سلسلہ کیوں نہیں تھمتا۔دونوں کے نزدیک نہ پاکستان اہم ہے اور نہ پاکستانی ، دونوں کا دھندہ "افرا تفری” کے سہارے پر ہی قائم ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک روشن فکروں کے ہاتھوں جس طرح،علاقائیت، فحاشی ،عریانیّت اورمشرق و مغرب زدگی کاشکار ہے اسی طرح طالبان کے ہاتھوں مذہبی منافرت،فرقہ واریّت اوربدامنی کے الاو میں بھی جل رہاہے۔ اگر ملک سے یہ افراتفری ختم ہو جائے تو لوگ طالبان کے اسلام کو بھی اور روشن فکر وں کے الہام کو بھی بخوبی جان لیں گے۔
ہمارا ملک جس صورتحال سے آج گزر رہاہے اس کے بارے میں کئی سال پہلے بلوچستان میں شہید حسینی نےاپنے خطاب کے دوران کہاتھا کہ اسلامی انقلاب کی دو خصوصیات ہیں ،ایک تو یہ کہ اسلامی انقلاب قومیّت ،معاشیات یا کسی اور تعصب کی بنیاد پرقائم نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیادیں صرف اور صرف اسلامی سوچ،اسلامی فکر اور اسلامی آئیڈیالوجی پر استوار ہوتی ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ انقلاب اتحاد بین المسلمین کاحامل ہوتاہے۔اس میں شیعہ سنّی،بلوچ،کرد،عرب،عجم سب شامل ہوتے ہیں۔
علامہ نے فرمایاتھاکہ اب دشمن مسلمانوں کے خلاف دو کام کریں گے،ایک مسلمانوں کو اسلامی آئیڈیالوجی اور اسلامی سوچ سے منحرف کریں گی اور دوسرے مسلمانوں کو قومیّت کی طرف لے جائیں گی کہ میں پختون ،ہزارہ،بلوچ،سندھی یا پنجابی ہوں۔
آج ہمیں صاف دکھائی دے رہاہے کہ اب مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کی فکروں پردواستعماری گروہ کام کررہے ہیں۔ایک گروہ طالبان کی صورت میں لوگوں کو اسلام سے متنفر اور منحرف کررہاہے جبکہ دوسرا گروہ نام نہاد روشن فکری کی صورت میں عوام النّاس کو پنجابی،بلوچی،پختون،سندھی،کشمیری،مقامی اور مہاجر میں تقسیم کئے جارہا ہے۔
ان دونوں گروہوں کی کوشش ہے کہ لوگ ،اسلام حقیقی کو فراموش کر کے ان کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کردیں اور جو ان کے پیچھے نہ چلے اسے ایک گروہ تنگ نظر،پسماندہ اور بیک ورڈ قرار دے کر مسترد کردیتاہے جبکہ دوسرا اسے کافر اور مرتد کہہ کر واجب القتل قراردے دیتاہے۔ دونوں کے نعروں میں اختلاف ہے فکراور عمل میں نہیں۔اربابِ علم و دانش بخوبی جانتے ہیں کہ کھوپڑیوں کےمختلف ہونے سے فکریں مختلف نہیں ہوجاتیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں کی ماننددہشت گرد گروپوں، طالبانی درندوں اور ناصبی ٹولوں کے نزدیک بھی دینی اقدار اور شعائراللہ کا کوئی احترام نہیں۔ان کے دلوں میں بھی قیامت اور خدا کا کوئی خوف نہیں۔شام ،بحرین،عراق اور پاکستان سمیت دنیابھرمیں ،مساجد میں نمازیوں کا،اولیائے کرام کے مزارات پہ زائرین کا اور مجالس عزا میں عزاداروں کا قتلِ عام اس بات کی دلیل ہے کہ خدا،انسان اور دنیا کو جس نگاہ سے کیمونسٹ اور سوشلسٹ دیکھتے ہیں اسی نگاہ سےطالبان اور ان کے ہم فکر و ہم مسلک دہشت گردبھی دیکھتے ہیں۔آئیڈیالوجی اور نظریات کے اعتبارسے دونوں ایک ہیں۔ آخر ہم کب تک نعروں،جھنڈوں اور سرخ و سبز رنگوں سے دھوکے کھاتے رہیں گے، رنگوں،جھنڈوں اور نعروں کے بجائے ہمیں فکروں اور نظریات پر نگاہ رکھنی چاہیے اس لئے کہ رنگوں،جھنڈوں اور نعروں کااختلاف،ہمیشہ فکری و نظریاتی اختلاف نہیں ہوتا۔
[email protected]