علن فقیر
امام علی بھلائی، جام شورو
صوفیانہ کلام کی گائیکی میں ایک ایسی کیفیت مضمر ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیاجا سکتا۔ صوفیانہ کلام کی گائیکی بنی نوع انسان کیلئے ایک پیغام ہے ۔اس کلام کی خاص بات اس میں پنہاں عشقِ حقیقی کے اسرار و رموز ہیں۔ جس میں صوفیاءکرام نے اپنے تجربات اور عشقِ حقیقی میں درپیش رکاوٹوں اور مراحل و مدارج بیان کئے ہیں۔ صوفی شاعری کا یہ کلام مختلف زبانوں میں ہوا ہے اور ہر زبان میں پیش کیا جانے والا صوفی کلام عوام میں بہت مقبول ہوا ہے۔صوفی کلام پڑھنے میں جتنا لطف دیتا ہے گائیکی کی صورت میں اس کلام کو سننا جسم اور روح میں ایسی حرات پیدا کر دیتا ہے کہ ہم اس دنیا و مافیا سے بے خبرہو جاتے ہیں۔ صوفیانہ کلام گانے والے صوفی گائیک مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں اور جن گائیکوں نے یہ کلام پڑھ دیا ہے وہ لازوال ہو گیا کیونکہ صوفی کلام پڑھنے کے لئے جس انداز اور درد کی ضرورت ہوتی ہے وہ آج کے گلوکاروں میں ناپید ہے۔صوفی کلام کو ہر سطح پر متعارف کرنا وقت کی اہم ضروت ہے اور یہ کام صوفیانہ گائیکی سے وابستہ افراد ہی کر سکتے ہیں۔صوفیانہ کلام کی با ت ہو اور ”علن فقیر“ کو یاد نہ رکھا جائے یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ جہاںبھی صوفی کلام کا ذکر ہوتا ہے وہاں علن فقیر کا نام ایک جھماکے سے ذہن میں روشن ہو جاتا ہے۔ معروف لوک فنکار اور صوفیانہ کلام گانے میں مہارت رکھنے والے علن فقیرکو دنیا سے رخصت ہوئے 14 برس بیت گئے ہیں۔ علی بخش عرف علن فقیر جامشورو کے علاقے آمری میں 1932ءمیں پیدا ہوئے۔ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔غربت ہی کی وجہ سے تعلیم بھی حاصل نہ کرسکے۔ فقیرانہ طبیعت کے مالک تھے۔ بچپن میں والدہ کے انتقال کے بعد تنہائی دور کرنے کی خاطر ایک روز حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے فقیروں سے کلام سنا جو ان کے دل میں اتر گیا۔صوفیانہ گلوکاری انہیں ورثہ میں ملی،انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے ہی صوفیانہ کلام گانا شروع کردیا۔ان کے والد ہمل فقیر اپنے وقت کے بڑے گائک اورتھری میر واہ میں مدفون بزرگ شاعر خوش خیر محمد ہسبانی کے مرید تھے۔ الن فقیر کا والد ایک ڈھولچی تھا جو کہ شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتا تھا۔علن فقیرسندھی، سرائیکی، پنجابی اور اردو میں گانے کی
صلاحیت رکھتے تھے وہ جس زبان میں بھی گاتے ایسا لگتا کہ یہ ان کی ہی زبان ہے۔علن فقیر نے عبداللطیف بھٹائی کے علاوہ حضرت شاہ ، سائیں سچل ، حضرت سلطان باہو، سا ئیں بلے شاہ اور دیگر شعراءکا کلام بھی گایا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے علن فقیر نے ملی نمغے بھی گائے جنہیں عوام میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے علن فقیر نے گائیکی کی ابتدا کی اور کئی سال لوگوں کوشاہ عبدالطیف بھٹ شاہ کا کلام سنایا۔ان کی گائیکی کا ایک انوکھا انداز تھا جو انہیں دوسرے لوک فنکاروں سے منفرد کرتا ہے۔ان کی گائیگی کا انداز اس لئے منفرد تھا کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعضاءکی شاعری بھی کرتے تھے۔ علن فقیر اگرچہ صوفی تھے لیکن انہوں نے فقیر تخلص کا انتخاب کیا وہ گھر بار چھوڑ کر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت پذیر ہو گئے ۔علن فقیر بنیادی طور پر ان پڑھ تھے لیکن خدا نے انہیں کمال کا حافظہ عطاءکیا تھا وہ جو ایک بات سن لیتے انہیں ازبر ہو جاتی تھی۔ وہ دربار شاہ عبدالطیف بھٹائی پر آنے والے عقیدت مندوں کو دیکھتے اور ان سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنتے وہیں پر علن فقیر نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام گانا شروع کیا۔ وہ 20برس تک اسی دربار پر مقیم رہا اور روحانی فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی پرسوز آواز ایک مرتبہ ریڈیو حیدر آباد تک پہنچ گئی جس کے بعد وہ ملک گیر شہرت حاصل کر گئے۔علن فقیر نے اگرچہ سندھی زبان میں گلوکاری کی ہے لیکن اس نے یہ کلام اردو میں بھی گایا ہے۔ علن فقیر نے صوفیانہ کلام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انتہائی مہارت سے پیش کئے تاہم گلوکار محمد علی شہکی کیساتھ مل کر ”اللہ اللہ کر بھیا اللہ ہی سے ڈر بھیا “گا کرانہوں نے صوفیانہ کلام اور پاپ میوزک کو ایک نئے روپ میں پیش کیا۔علن فقیر کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارز بھی دیئے گئے۔ علن فقیر کو صدر جنرل ضیاءالحق نے 1980ءمیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا اس کے علاوہ انہیں شاہ لطیف ایوارڈشہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔علن فقیر جہاں بھی جاتے مخصوص قسم کی سندھی پگڑی اورتمبورے کے ساتھ دیکھائی دیتے۔ ذیابیطس، پھیپھٹروں اور گردوں کی بیماری کی وجہ سے علن فقیر 4جولائی 2000ءکو اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے لیکن ان کی یاد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے۔ سندھی زبان سے عدم واقفیت کے باوجود اس کی پرسوزآواز کے لاکھوں شیدائی آج بھی دنیا میںموجود ہیں۔علن فقیر کے بعد اب ان کے بیٹا والد کے فن کو آگے لے جارہا ہے۔