صوفی فقیر قادر بخش بیدل کا سالانہ عرس ملتوی، دو روزہ آن لائین عالمی کانفرنس
کورونا کے سبب فقیر قادر بخش بیدل کا سالانہ عرس ملتوی، دو روزہ آن لائین عالمی کانفرنس میں دنیا بھر سے بھرپور شرکت۔
- پانچ زبانوں میں تیس کتاب دینے والا بیدل ایک بیباک عوامی شاعر اور وحدت الوجود کا پرچارک تھا۔
- بیدل کے برداشت اور رواداری کا نظریہ سندھ کا خمیر تھا جس کی دنیا کو آج بھی ضرورت ہے۔
بیدل کی مساوات اور رواداری کا نظریہ سندہ کی پرانی پہچان ہے جس کی کو قائم رکھنے اور عام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔سرکار کرونا کی وجھہ سے ان سالانہ میلوں پر پابندی کو نئے آن لائین طریقوں سے قائم رکھے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے بزرگوں کے آفاقی اور روشن خیال پیغام کو عام کرے اور نئے نسل کو منتقل کرنے کے لئے تعلیمی نصاب میں ڈالا جائے۔
یہ قراردادیں صوفی شاعر قادر بخش بیدل کے سالانہ عرس کے کرونا کے سبب ملتوی ہونے پر دو روزہ بیدل آن لائین کانفرنس میں ساری دنیا سے شامل ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں نے پیش کیں۔ دو متحرک ادیبوں رمیش راجہ اور منظور اجن نے اس کانفرنس میں درگاہ بیدل روہڑی کا آن لائین دیدار، محفل سماع، لیکچر، مشاعرہ اور ادبی کانفرنس کا بےحد کامیاب اہتمام کیا۔
پروگرام کے آغاز میں رمیش راجہ نے کہا کہ قادر بخش بیدل کو یہ دو روزہ آن لائین خراج دراصل انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے نوجوان نسل کی آگاہی کیلئے ہے۔ اس نے مرید کہا کہ بیدل کی مساوات اور رواداری کا نظریہ سندہ کی پرانی پہچان ہے جس کی کو قائم رکھنے اور عام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
صوفي دانشور اور ماہر موسیقی اختر درگاہی نے بیدل کے فن اور فکر پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ فقیر قادر بخش بیدل(1815-1873) اس خطے کے ایک اعلی پائے کے صوفی مفکر، بڑی عالم اور بی باک شاعر تھی، علاقائی زبانوں کے علاوہ ان کو عربی اور فارسی پر عبور تھا۔ ان کی اب بھی موجود لکھی ہوئی 30 کتابوں پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ وہ سندھ کے کلاسیکل دور کے آخری عالم شاعر تھی۔ وہ تصوف کی انقلابی اور منصوری روایت وحدت الوجود کے پرچارک تھے۔ وہ تارک الدنیا بزرگ نہیں تھے بہت ملنسار، عاشق مزاج اور سیر سفر کرنے والے ایک عام آدمی تھی۔
آمریکا سے نوجوان دانشور ظفر بھٹو نے روہڑی شہر میں درگاہ بیدل کے قریب رہنے کی یادائشیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں رواداری اور سکون والا ماحول ہوتا تھا ہندو مسلم ساتھ لنگر پکانا کھانا اور ساتھ ہی دھمال اور محفل سماع سننا ایک پر مزہ لمحات تھے۔لیکن گدی نشینی پر لمبا جھگڑا ایک غیر فقیری عمل تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ کرونا میلے کے ہجوم کو تو روکتی ہے لیکن ادارے اور گدی نشین، اپنے بزرگوں کے آفاقی پیغام کو عام کرنے کیلئے ٹی وی پروگرام کرنے، اخباری ضمیمہ نکالنے، سووینر چھاپنے یا کتابیں مارکیٹ کرنے سے کیوں غافل ہیں۔
سول سوسائٹی کی نیتو وادھوانی نے کہا کہ آج سے دو سو سال پہلے بیدل کے دور میں جس امن، مساوات اور رواداری سے زندگی بسر ہو رہی تھی آج جدید علم کے دور میں رواداری ناپید ہو گئی ہے۔ تمام گدی نشین ان بزرگوں کے فکر کو آگے بڑھانے کے برعکس اپنے پیٹ کے فکر میں ہیں۔ اس دھرتی کے ہندئوں کو مندر نہیں صرف دل میں جگہ درکار ہے۔
میزبان منظور اجن نے دو روزہ کانفرنس کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ عوامی تاریخ کے مطابق بیدل عشق سے سرشار عوامی شاعر تھے سندھی اور سرائیکی کافی کی صنف کو بہت آگے بڑھایا۔ ماضی کے اس کلاسیکل ادب کو آگے بڑھانے اور اجاگر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور ہم اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں اور کریں گے۔
ان کے علاوہ فن لینڈ سے رخسانہ علی، آمریکا سے ڈاکٹر خوشحال، ہنگری سے دانش پرمار، روس سے ڈاکٹر زیشان، بحرین سے منظور سیٹھار، دبئی سے دودو کھٹیان اور پاکستان سے کئی شہروں سے ادیب اور شاعروں نے بیدل فقیر کو خراج تحسین پیش کیا