کالم

سندھی کے ناول نگار علی بابا کو جنم دن کے حوالے سے ویب نار

عالمی مفکرین کی طرح علی بابا بھی سادہ طبیعت اور بلند خیال رکھنے والا بی مثال نثر نویس تھا۔
علی بابا کی لکھی ہوئی کہانیاں عام انسانوں اور آدی واسیوں کی زندگی کا حقیقی عکس ہیں۔

کرونا کی وجہ سے نامور ادیب رمیش راجہ اور منظوراجن کی طرف سے شروع کیئے گئے آنلائن علمی ادبی تقریبات کے سلسلے کا تیرہواں پروگرام منفرد ناول نگار علی بابا کو خراج تحسین پیش کرنے کے کیا گیا جس میں پوری دنیا سے آنلائن شامل ہونے والے شاعر و ادیبوں نے ان کے ڈراموں، کہانیوں، ناول اور انٹرویوز کے اقتباسات پڑہ کرا دبی انداز میں خراج پیش کیا۔
Ali Babab Webnarپروگرام کے تعارفی کلمات میں رمیش راجہ نے کہا علی بابا سادہ طبیعت اونچے خیالات رکھتا تھا۔ ان کی کہانی، ناول اور ڈراموں میں منظر نگاری کی مہارت نمایاں تھی۔ادیبوں کے گروہی ، سرکاری اشرواد سے دور عالمی معیار کا با ضمیر نثر نویس تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادیب کے کتاب اور کردار کے تضاد کے سبب ادب سماج میں تبدیلی لانے کے برعکس ذھنی عیاشی کا سبب بن جاتا ہے۔جس سے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ آج کے بڑھتی ہوئی نا نصافیوں اور انتشار کے دور میں عوامی مزاحمتی ادب ہی اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔
نامور شاعر اور ادیب علی آکاش نے کہا کہ علی بابا کی کہانیاں سماج کا حقیقی عکس پیش کرتی ہیں۔اس کی لکھی ہوئی کہانیاں سماجی حقیقت نگاری اور وجودیت کا سنگم ہیں
نامور ناول نگار منیر چانڈیو نے کہا علی بابا بٹوارے کے بعد والے کہانیاں لکھنے والوں میں صف اول میں ہیں- اور اس کے ڈرامے دنگی منجھ دریا کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی،علی بابا نے اپنی کہانیوں میں عام انسانوں کے درد، تکلیفوں اور مشکلات کو بیان کیا آس کے منفرد لکھنے کے انداز کی وجہ سے اسے سندھی ادب میں اھم حیثیت حاصل ہے۔
کینیڈا سے احمر ندیم میمن نے کہا علی بابا نے دھرتی کے اصل باشندوں وارثوں کو فخر والے انداز میں بیان کرکے تمام نفرتیں پھیلانے والوں کو مونہ توڑ جواب دیا۔ اس نے کہا آج کے ادیب کے کردارمیں وہ مزاحمت نظر نہیں آتی۔
فن لینڈ سے پی ایچ ڈی اسکالر رخسانہ علی کا کہنا تھا آج کے دور کے ادیب کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی پرانے ادیبوں کی علمی حیثیت ان کے مزاحمتی کردار اور دھرتی سے محبت کی وجہ سے ہے۔علی بابا کے ڈرامے دھرتی سے دھکیلے گئے ،موھن جو دارو اور دنگی منجھ دریا عالمی معیار کے شاھکار ہیں۔
پروگرام کے میزبان نامور ادیب منظور اجن نے کہا علی بابا مصنوعیت سے نفرت کرنے والا اعلیٰ درجے کا لکھاری اور سندھ کا بھٹکتا ہوا روح تھا،اس کی کھانیاںون ،ڈرامون میں سادے اور سچے کردار ملتے ہیں جیسا کہ بالیشاہی، موکھی متارا، مومل رانو ، ھوشو شیدی، موھن جو دڑو کی ناچنے والی، سمیت آس کے سارے کردار ژندہ ہیں۔ کہانیاں لکھنے والا مر سکتا ہے لیکن اس کی کہانیاں زندہ رھتی ہیں۔
اس کے علاؤہ آمریکا سے نامور شاعر عبد الغفار تبسم اور ڈاکٹر خوشحال کالاٹی ،ہنگری سے دانش پرمار روس سے ڈاکٹر ذیشان جتوئی، بحرین سے منظور سیٹھار ، دبئی سے دودو خان کھٹیان ،پاکستان سے نوشین اجن، نیتو وادھوانی ،اور دیگر نے آن لائن شرکت کرکے علی بابا کے فن،فکر، پر اپنی رائے دیکر اسے بھرپور خراج تحسین پیش کیا،مطالبہ کیا گیا کہ سرکاری ادبی ادارے اس کے کتاب انگریزی میں ترجمہ کرکے عالمی معیار کے ادیب سے دنیا کو روشناس کرایا جائے

Leave a Reply

Back to top button