سندہ میں فارماسسٹس کے مسائل اور انکے حل۔
25 ستمبر : دواسازوں کا عالمی دن۔
ایاز خاصخیلی’ آر پی ایچ’
پوری دنیا میں 25 ستمبر دواسازوں (فارماسسٹس) کے عالمی دن کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن پوری دنیا میں موجود فارماسسٹ کمیونٹی انسانی صحت میں دواسازی کی اہمیت اور کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔ نیدرلینڈز میں قائم دواسازوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل فارماسیوٹیکل فیڈریشن (ایف آئی پی) ہر سال عالمی دن کے حوالے سے اس سال کے لئے موضوع چنتی ہے اور پھر پورے عالم کی فارماسسٹس کمیونٹی اس موضوع کے حساب سے مختلف تقاریب ترتیب دیتی ہے۔ یاد رہے کہ ایف آئی پی نے 2000 کے اوائل میں استنبول ترکی میں ایک کانفرنس کے دوران اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تھا، اسی حساب سے گزشتہ اکیس سالوں سے یہ دن زبردست جوش و جذبہ سے منایا جاتا ہے۔ اس سال کے لئے ایف آئی پی ایف کی جانب سے اس سال کے لئے "ہمیشہ آپ کی صحت کے لئے قابل اعتماد” کے عنوان کے ساتھ منایا جائیگا۔ باوجود اس کے کہ پاکستان میں دواسازی کی فیلڈ کو جو مقام ملنا چاہیئے تھا وہ مقام نہیں ملا ، پھر بھی پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں کچھ نہ کچھ بھتر ہے اور مزید بہتری کے لئے کام کیا جارہا ہے۔ لیکن سندہ حکومت کی جانب سے صوبے میں اس حوالہ سے ابھی تک نہ تو کوئی جامع پلان بنا ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں کوئی امید نظر آرہی ہے۔ اس آرٹیکل میں سندہ حکومت اور منسلک مرکزی اداروں جیسا کہ ڈریپ اور پاکستان فارمیسی کاونسل کو اپیل کی گئی ہے کہ صحت کے شعبے میں توسیع کے ساتھ سندہ کی فارماسسٹ کمیونٹی کو ان کے جائز حقوق دے کر انہیں احساس کمتری سے بچایا جائے۔ ”
صحت اور تعلیم دنیا کے ہر معاشرے اور حکومتوں کے بجٹ میں ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر فوکس کیے جاتے ہیں۔ تاہم ، وقت اور ترقی کے ساتھ ساتھ انکی ترجیحات بھی بڑھتی رہتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے سندہ شاید دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں ان دونوں معاملات کی اھمیت کو بالکل ہی ختم کردیا گیا ہے۔ کوئی سرکاری عہدیدار نہیں ہے جو سندہ کےفارماسسٹ کے مسائل سنے اور حل کرے۔ میری ذاتی رائے ہےکہ حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ فارمیسی کی تعلیم اور پریکٹس کے شعبے میں فارماسسٹ اپنا کلیدی کردار کرتے ہوئے ترقی کرے۔ آئیے سندہ کے فارماسسٹس کے مسائل کو دیکھیں جن سے آج کل کا فارماسسٹ زورآزما ہے اور انکے حل کے لئے کچھ مشورے بھی دیے جارہے ہیں تاکہ حکومت ان مسائل کو سمجھے اور حل کرسکے۔
1) سندہ میں فارمیسی کی تعلیم:
فارمیسی کی تعلیم کا مطلب ہے بچوں کو ادوایات کی دریافت اور اس کے مریضوں پر اثرات کی تعلیم دینا اور یہ کہ اس دوائی کے دریافت ہونے کے تمام مراحل کی معلومات دینا۔ فارمیسی کی تعلیم میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ادوایات سازی میں تحقیق کیسے کی جائے اور اس کی تشکیل نو کا عمل کیا ہے؟ دوائی کو کس طرح بیچنا ہے اور مریض کو دوائی کیسے،کب کتنی استعمال کرنی ہے، لیکن یہ حکومتی بے ایمانی کی انتہا ہے جس نے اس اہم شعبے کو دوسرے محکموں کی طرح سمسٹر سسٹم کی ترجیح بنا دیا ہے، جبکہ دوسرے صوبوں کی برعکس ہمارے اداروں میں پوری طرح سے تحقیق اور تجرباتی لیبارٹریز تک نہیں ہیں اور نہ ہی وہ جانور ہیں جن پر ادوایات کے تجربے ہوتے ہیں۔ افسوس کہ سندھ کی جامعات اور دیگر بڑے اداروں میں دوا سازی کی باقاعدہ سہولیات جو لازمی ہونی چاہیئں وہ تک نہیں ہیں نہ تو کیمیکل موجود ہیں نہ ہی تجربات کرنے کے لیے کوئی مشینری۔ دوسری طرف ہمارے فارمیسی تعلیم کے ادارے اندورنی سیاست کا گڑہ بن چکے ہیں۔
حل: (اے) میرے خیال میں حکومت فارمیسی کی تعلیم کے تمام شعبوں میں سمسٹر کی بجائے سالانہ امتحانی عمل کو ترجیحی طور پر متعارف کروائے تاکہ بچے مزید کتابیں پڑھ سکیں اور زیادہ سے زیادہ ادوایات سازی پر معلومات حاصل کرسکیں
(بی) تمام فارمیسی اداروں کے پاس چھوٹے پیمانے پر دواسازی کی مشینری ہونی چاہئے جس سے فارمیسی کے طلباء اور طالبات کیپسول ،شربت ، پاؤڈر ، گولیاں، کریم اور دوسری طرح کی دوائیں تیار کرنا سکھیں اور پھر وہ بنی ہوئی دوائیں غریبوں کو عطیہ کی جائیں۔
(سی) تمام فارمیسی اداروں میں وارڈ بنا کر 8 سے 10 بیڈ لگانے چاہئیں تاکہ بچے مریض کو عملی طور دوائی اور وزن کی وضاحت کے بارے میں عملی معلومات دے سکیں۔
2) فارمیسی کائونسل آف سندہ :
یہاں آپ کو حیرت ہوسکتی ہے کہ پورے پاکستان میں سندھ فارمیسی کائونسل واحد ادارہ ہے جسکا اپنا کوئی سرکاری دفتر نہیں تھا، حالانکہ گزشتہ کچھ دن پہلے دفتر کو ایک نئی جگہ شفٹ کردیا گیا ہے ۔ آپ حیرت زدہ ہوجائیں گے جس دورانیے میں سندہ میں صرف جامعہ سندھ اور جامعہ کراچی میں فارمیسی پڑھائی جاتی تھی جو عملہ فارمیسی کائونسل میں اس وقت تھا آج بھی وہ ہی عملہ ہے۔ اب مجھے بتائیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سندہ میں آج اور اب تک سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں موجود پندرہ سے زائد فارمیسی اداروں سے پاس آئوٹ ہونے والے فارماسسٹس کے لئے ایک کائونسل میں ایک سکریٹری اور ایک کلرک کافی ہے جو کیٹیگری اے جاری کرے؟؟؟
حل: (اے) سندہ فارمیسی کائونسل کو اس کی مکمل عمارت دیں۔
(بی) کونسل کے عملے کو 2 سے بڑھا کر 10 کردیا جائے اور انہیں مکمل کمپیوٹرائزڈ سسٹم فراہم کیا جائے۔
(سی) فارمیسی کائونسل کے مجاز سیکریٹری کو ایم فل یا پی ایچ ڈی فارماسسٹ ہونا چاہئے۔
(ڈی) ہر سال فارمیسی پاس کرنے والے بچوں کو فارمیسی کونسل کے ذریعہ تربیت دینی چاہئے اور وہیں انکو لائسنس جاری کیے جائیں۔ فارمیسی کائونسل میں اے کیٹیگری کی رجسٹریشن اور حصول کا طریقہ کار آسان بنایا جائے جیسے فارمیسی ایکٹ میں بتایا گیا ہے اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں رائج العمل ہے۔
(ای) سندھ میں صحت کے شعبے کی طرح صوبائی سطح پر فارمیسی کا ایک علیحدہ شعبہ قائم کریں۔
(ایف) دیر سے رجسٹریشن کروانے والے فارماسسٹ سے رجسٹریشن لینا بند کریں کیونکہ یہ کام صرف صوبہ سندھ میں ہوتاہے۔ جیسی ہی فارماسسٹ گریجوئیشن کرے اس پاکستان میڈیکل کائونسل یا پاکستان انجینئرنگ کوئانسل کی طرح انہیں وہیں ادارے میں ہی رجسٹر کیا جائے۔
(جی) پنجاب کی طرح سندھ کے تمام رجسٹرڈ فارماسسٹوں کو دوسرے صوبوں کی طرح شناختی کارڈ جاری کیے جائیں تاکہ وہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی استعمال ہوسکیں۔جیسا کہ ان ممالک میں جہاں فارمیسی اہم ہے اور فارماسسٹ کا احترام کیا جاتا ہے۔
(ایچ) سندھ فارمیسی کونسل کے سکھر اور حیدرآباد میں بھی برانچ دفاتر کھولے جائیں تاکہ ان شہر یا ملحقہ شہروں میں سے فارماسسٹ بھی آسانی سے اپنے کاغذات جمع کرائیں اور وہاں سے ہی اپنا لائسنس وصول کرسکیں۔
(آئی ) لائسنس کا نظام مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ اور آن لائن ہونا چاہئے تاکہ بچوں کو دفاتر کے چکروں کی پریشانی سے بچایا جاسکے۔
(3) دواسازی کی کمپنیاں:
کراچی و حیدرآباد میں قائم دواساز کمپنیوں میں فارماسسٹ کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، خصوصی طور پر تنخواہ کے حوالے سے، آج کے اس دور میں جب سرکاری طور پور ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ پچیس ہزار ماہانہ مقرر کی ہے وہیں کوالیفائیڈ فارماسسٹ (پانچ سالہ ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری کے بعد بھی) پندرہ سے سولہ ہزار ماہانہ تنخواہ لینے پر مجبور ہیں۔
حل (اے) دواساز کمپنیوں کو فارماسسٹ کی 17 ویں گریڈ کے برابر کی تنخواہ ادا کرنے کا پابند ہونا چاہئے۔
(بی) دواسازی کی فروخت اور مارکیٹنگ مینجمنٹ کیڈر کے حساب سے ایک فارماسسٹ کی بھرتی لازمی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ مل کر میڈیکل اسٹور مینیجمینٹ کو ادوایات کے بارے میں مکمل معلومات دے سکیں۔
(سی) فارمیسی اداروں کو اپنے چوتھے اور پانچویں سال طلباء اور طالبات کو مطالعاتی وزٹس پر بھیجنے کا پابند ہونا چاہئے۔ اور بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے اداروں میں سیمینار کروانے کا پابند ہونا چاہئے ۔
(4) ہسپتال فارمیسی:
سندہ میں سرکاری طور پر تقریبآ دو سو فارماسسٹس صوبے کی مختلف ٹیچنگ ہسپتال میں کام کررہے ہیں جو کہ عالمی ادارہ صحت اور سپریم کورٹ کے جاری کردہ احکامات کے حساب سے بہت کم ہیں۔ اصولی طور پچاس بیڈ پر ایک فارماسسٹ ہونا چاہیئے۔ پرائیوٹ سیکٹر کی ہسپتالوں میں آغا خان، لیاقت نیشنل اور انڈس ہسپتال میں فارمیسی سروسز ڈپارٹمنٹ قائم ہیں اور کام کررہے ہیں۔
حل: (اے) سندھ کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری چھوٹے اور بڑے اسپتالوں کو سپریم کورٹ احکامات اور ورلڈ ھیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 50 بستر پر ایک فارماسسٹ رکھنے کا پابند ہونا چاہئے۔
(بی) ہاسپٹل فارمیسی میں فارماسسٹس کو ہائوس جاب کے مواقع دیے جانے چاہئیں جس طرح ڈاکٹرز کو دیئے جاتے ہیں اور ڈاکٹرز کی طرح مساوی فوائدبھی دینا چاہئیں۔
(سی) سرکاری و غیر سرکاری اسپتال کے میڈیکل اسٹوروں سے غیر منسلک عملے کی جگہ
کوالیفائائیڈ فارماسسٹ کو رکھنا چاہئیے۔
(ڈی) ہسپتالوں کو پابند ہونا چاہئے کہ دواسازی کے عمل میں فارماسسٹ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرے کیونکہ یہ کام فارماسسٹس کا ہے ناکے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کا۔
5) میڈیکل اسٹور/ کمیونٹی فارمیسی:
یہ انتھائی افسوسناک ہے کہ پورے پاکستان میں سندھ واحد صوبہ ہے جس کی پوری آبادی میں جتنے بھی میڈیکل اسٹورز ہیں وہاں پر پانچ فیصد بھی تجرباکار کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود نہیں ہیں اور نتیجہ کے طور پرمیٹرک پاس یا ناخواندہ افراد ادوایات کی غلط تشخیص اور استعمال کرواتے ہیں۔
حل: (اے) سندھ کے تمام میڈیکل اسٹوروں پر فارماسسٹس کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔
(بی) دوسرے صوبوں کی طرح ، سندھ میں بھی تحصیل کی سطح پر ڈرگ انسپکٹرز کی تقرری کو یقینی بنایا جائے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق شہر لاہور میں صرف 11 ڈرگ انسپکٹر ہیں جبکہ پورے صوبہ سندھ میں 24 ڈرگ انسپکٹر ہیں۔
(سی) سندھ میں ڈرگ انسپکٹرز کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے دفتر ، گاڑی اور سیکیورٹی کے لئے گارڈ فراہم کیے جائیں تاکہ وہزیادہ مؤثر طریقے سے کام کرسکیں۔
(ڈی) صوبے میں بیوٹی پارلرز اور حجام کی دکانوں پر استعمال ہونے والے کاسمیٹکس اور اوزاروں کو چیک کرنے کا اختیار بھی ڈرگ انسپیکٹرز کو دیا جائے جس سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی محلق بیماریوں کے پھیلاؤ میں واضح کمی آئے گی۔
(ای) ہیلتھ کیئر کمیشن کے 2 نمائندوں کو فارماسسٹ کمیونٹی سے مقرر کیا جانا چاہئے تاکہ وہ گشتی ٹیموں کے ساتھ ادوایات کے معائنے کا عمل مہارت کے ساتھ کر سکیں۔
(6) ڈائریکٹوریٹ آف فارمیسی:
(اے) سندھ میں فوری طور پر فور ٹائر فارمولے کو نافذ العمل کیا جائے۔
(بی) صوبہ سندھ میں وزارت صحت کے ساتھ وزارت فارمیسی کا قانون پاس کیا جائے تاکہ ادوایات سازی کے پورے عمل کا براہ راست مانیٹر کیا جاسکے۔
(سی) دنیا کی دیگر مہذب معاشروں اور پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں گاؤں اور چھوٹے شہروں کی سطح پر کمیونٹی فارماسسٹ کا ہونا ضروری ہے۔ جو لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر ادویات اور مرائض کے بارے میں مفید اور کار آمد معلومات مہیا کرسکے۔
(ڈی) سندھ کے تمام اداروں میں مقرر فارماسسٹ کے کام میں غیر مجاز عملے کی مداخلت کو روکنے کے لئے انتہائی سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں۔
میں نے پوری کوشش کی ہے کہ سندھ کے فارماسسٹس کمیونٹی کو درپیش مسائل کو سندہ حکومت کے سامنے پیش کر سکوں اور ان مسائل کے سنجیدہ حل پیش کرسکوں۔ سندہ کا فارماسسٹ ابھی بہی پاکستان کے تینوں صوبوں سے بہت پیچھے ہے اس لئے وزیر اعلیٰ سندہ سید مراد علی شاہ ، وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے اپیل ہے کہ سندہ میں فارماسسٹس کو ھیلتھ کیئر پروفیشنل تسلیم کرکے ان کی خدمات سے بھرپور فائدہ لیا جائے۔ پاکستان فارماسسٹس ایسوسیشن جو کہ فارماسسٹ کیمونٹی کی نمائندہ تنظیم ہے سے بھی گذارش ہے کہ وہ آپس میں ذاتی اختلافات ختم کرکے فارماسسٹس کیمونٹی کے حقوق کے لئے میدان عمل میں ائے اور فارماسسٹس کے حقوق کے کیس کو صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر موثر انداز میں پیش کرکے حل کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
[author title=”کالم نگار کے بارے میں” image=”http://”](ایاز خاصخیلی پاکستان فارمیسی کاونسل سے ایک رجسٹرڈ فارماسسٹ ہیں اور رائل فارماسیوٹیکل سوسائٹی آف گریٹ برٹین کے ایسوسئیٹ میمبر و انٹرنیشنل فارماسیوٹیکل فیڈریشن نیدرلینڈ کے ایکٹو میمبر ہیں۔ پاکستان میں فارمیسی فلیڈ کے حقوق کے حوالے سے اپنا واضح موقف رکھتے ہوئے سندہی اردو اور انگریزی میں بلاگس لکھتے ہیں)[/author]