محرم الحرام کی سبیل اور میری انگوٹھی والی انگلی
علی عادل اعوان
غالباً میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیاں اپنے ننھیال ہی گزارتا تھا۔ یہ ان برسو ں کی بات ہے جب محرم الحرام کا مہینہ بھی گرمیوں کی چھٹیوں یعنی مئی جون میں آتا تھا۔ گاؤں میں محرم شروع ہوتے ہی مٹی کی چھوٹی چھوٹی "ڈولیاں اور بادیاں” بیچنے والے آ جاتے اور ہم ان سے ایک ایک دو دو روپے کی ڈھیروں ڈولیاں بادیاں خرید لیتے۔ یہ مٹی کی چھوٹے چھوٹے ایک ایک ہاتھ کے گاگر اور ہرات نما برتن ہوا کرتے تھے گاگر یا گھڑا نما چھوٹی سی گھڑولی کو ڈولی اور پرات نما چھوٹی سی تھالی کو بادی کہا جاتا تھا۔ جب نو اور دس محرم کو مولا حسین کی نیاز اور سبیل کا پانی تقسیم ہوتا تو چھوٹے بچے اپنی اپنی ڈولیاں بادیاں اٹھائے گاؤں میں گھوم جاتے اور انہی برتنوں میں نیاز ڈلوا کر چلتے پھرتے کھائے پیئے جاتے۔۔۔ کہیں دودھ و شربت بنٹ رہا ہے تو کہیں کھیر یا چاول تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔ غالباََ نو محرم کو قریب عصر کا وقت تھا، مگر سورج عصرِ عاشور کی شبیہ بنا ہوا تھا۔ ہمارا گاؤں قریباً سارا ہی بریلوی سنی تھا لہٰذہ کسی جلوس و مجالس سے بے پرواہ ظہر سے عصر کے بیچ انتظارِ آذان میں سویا پڑا تھا۔ اب جب عصر کا وقت قریب تھا اور گلیوں میں اکا دکا آوازیں آ جا رہیں تھیں، میری نانی نے بی بی سکینہ کے نام کی دودھ کی سبیل تیار کی اور ڈولیاں بادیاں سجا کر مجھ سے کہا کے محلے کے بچوں کو بلا لاؤ اور پھر گلی میں سبیل لگا لینا۔ لو جی میں حکم پاتے ہی اپنے عزیز ترین دوست (جو میرا رشتے میں دور پار سے خالہ زاد بھی لگتا تھا) علی کو بلانے دوڑا کہ وہ میرے گاؤں میں ہر اچھی بری وارداتوں کا ساتھی تھا۔ میں اسکے دروازے پر پہنچ کر در کھٹکھٹانے لگا مگر وہاں سے کوئی نہ نکلا، میں نے دروازوں کے بیچ کے فاصلے سے دیکھا تو علی، اسکی بہن اور اسکی نانی سٹینڈ والا پنکھا لگائے گھوڑے بیچے سو رہے تھے۔ اب آگے جو ہوا وہ بہت مضحکہ خیز تھا۔ میں وہاں سے کوئی جواب نہ پا کر واپس جانے کے بجائے انکے لوہے کے دروازے کی کُنڈی کو انگلیوں کی مدد سے اندر سے کھولنےکی کوشش کرنے لگا۔ کُنڈی تو نہ کھلی البتہ میری انگلی نجانے کیسے انکے دروازے کے کنڈے میں پھنس گئی۔۔۔ اب کیا تھا میں کھینچتا تھا اور انگلی نکلتی نہ تھی، میں دروازہ دھڑا دھڑ بجاتا تھا مگر علی اور اسکے خاندان والے، سٹینڈ والے پنکھے کے شور میں بے سدھ پڑے سوتے تھے۔۔۔ میں کچھ دیر آوازیں لگاتا رہا مگر پھر گھبرا کر رونے لگا۔۔۔ اتنے میں میرے نانا کے بڑے بھائی کا وہاں سے گزر ہوا، دیکھ کر پہلے تو ڈانٹا کہ دروازے سے چپکے کیا کر رہے ہو مگر پھر جب پاس آ کر دیکھا تو مزید ڈانٹا کہ شرارت کرنے کے لیئے اور کوئی جگہ نہ ملی تھی؟ پھر اپنے تئیں کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح انگلی کنڈے میں سے نکل آئے مگر انگلی تو گویا ضد لگائے بیٹھی تھی یا شاید کنڈا وہابی تھا کہ کہیں یہ یہاں سے چھُوٹا تو سبیل پر پل پڑے گا۔۔۔بہر حال انہوں نے مجھے تسلی دی کہ روؤ نہیں میں تمہاری ماں یا نانا کو بلا کر لاتا ہوں۔ اب وہ گھر قدم رکھ رہے تھے کہ نانی نے کہا آؤ بھائی آؤ سبیل پیو، نانا بولے "ہاں تم ادھر سبیل بانٹو اور وہاں نواسہ لوگوں کے کونڈوں میں انگلیاں پھنسائے کھڑا ہے” ساری بات سننے کے بعد نانا نانی اور میری ماں بھاگتے دوڑتے آئے۔۔۔ دروازے بجائے مگر وہاں وہ اصحابِ کہف کی نیند والوں نے نہ اٹھنا تھا نہ اٹھے۔۔۔ امی گھر سے صابن اور پانی لائیں اور نانا نے انگلی اور کونڈے پر صابن مل کر لاکھ جتن سے انگلی نکالی ادھر میرا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔۔۔ شام کو جب علی اور اسکے گھر والے جاگے تو بہت حیران ہوئے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ انکے دروازے پر اتنا میلا لگا رہا اور انہیں جاگ نہ ہوئی۔
اب اگلا کارنامہ جو میں نے کیا وہ اس سے بھی حیران کن تھا۔۔۔ کچھ دن بعد جب میں واپس اپنے گھر اسلام آباد آیا تو والدہ نے محلے کی سب عورتوں کو یہ کہانی سنا دی۔۔۔ سب بہت ہنسے۔۔۔ ایک دن ماں نے مجھے دوکان سے کچھ لانے کو کہا۔ میں سیڑھیاں اترتے ہوئے اپنے دوست کے گھر کے پاس پہنچا تو نظر اسکے دروازے کے کنڈے پر پڑی، میں سوچ میں پڑ گیا کہ میری انگلی اُس کنڈے میں کیونکر پھنس گئی تھی؟؟ یہی جاننے کے لیئے میں نے دوست کے دروازے کے کنڈے میں اپنی انگلی ڈال دی۔۔۔ اور یقین جانو کہ میری انگلی وہاں بھی پھنس گئی۔۔۔ میں بہت گھبرایا کہ یا خدا یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے انکے گھر کی گھنٹی بجائی تو میرے دوست کے والد نے دروازہ کھولا۔ جیسے ہی انہوں نے دروازہ اپنی جانب کھینچ کر کھولا میں اسکے ساتھ ہی اندر کھینچا چلا گیا۔۔۔ انکل نے مجھے اور میری انگلی کو دیکھا، پہلے حیران ہوئے اور پھر زور زور سے ہنستے ہوئے بولے "اوئے!!! ادھر بھی؟؟؟”
اس دن کے بعد دو کام ہوئے۔۔۔ ایک تو میں نے اپنی اس انگلی میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی انگوٹھی پہن رکھی، دوسرا محرم میں سوائے غمِ حُسین کے کسی کو نہ رویا
واہ ملک علی عادل اعوان صاحب ۔ بہت عمدہ
بہت دلچسپ روداد اور بہترین طرزِ تحریر