تارا ری ری رُوووو را
علی عادل اعوان
یہ تب کی بات ہے جب میں میٹرک کا طالب علم تھا. ہم تقریباً دس پندرہ دوستوں کا گروہ تھا جو ایک ہی ہائی اسکول میں پڑھتے تھے. کوئی نویں جماعت میں تھا، کوئی دسویں میں، کوئی آٹھویں میں تھا تو کوئی چھٹی ساتویں میں. ہم سب اسکول کے بعد قریباً عصر کے وقت اپنے اسکول کے ہی ایک شفیق استاد سر شیخ عبدالستار صاحب کے یہاں پڑھنے جاتے تھے… مدعا یہ تھا کہ ہم سب اپنے اسکول میں مختلف جماعتوں کے ایک نمبر کے نالائق اور شرارتی لڑکے تھے اور ہمارے والدین کے تعلقات مختلف ذرائع سے استاد محترم کے ساتھ استوار تھے اور کچھ تھوڑا بہت ہمارے والدین انکو ٹیوشن کی مَد میں ادا بھی کر دیتے تھے. لیکن وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتا کہ استاد خود اور انکا پورا گھرانہ ہمیں پڑھا کر بڑا آدمی بنانے پر بضِد رہتا… سَر پڑھاتے، آنٹی (استانی یعنی سر کی بیوی، خدا انکی مغفرت کرے) پڑھاتیں، انکے بیٹے پڑھاتے، بیٹیاں (یہ گھر علم کا گہوارہ تھا) پڑھاتیں. اور ہم ایسے بد بخت اور بد دماغ تھے کہ اُنکے ساتھ بھی شرارتیں اور بد تمیزیاں کرنے سے باز نہ آتے تھے.
ہم جب اپنے اپنے گھروں سے نکل کر سرِشام ایک پارک میں اکٹھے ہوتے تو ایک سماں بندھ جاتا… وہاں سے ہم اپنا اسکول کراس کرتے اور تین لمبی گلیاں کاٹ کر ایک مارکیٹ سے ہوتے ہوئے استادوں کی گلی میں داخل ہوجاتے. پارک سے گھر تک کے سفر کے دوران کوئی بچہ کوئی راہ گیر ہماری شرارت، آوازے یا بھپتی سے نہ بچ پاتا. ایک نعرہ جو اکثر ہم لگاتے وہ یہ تھا کہ میں زور سے "تارا ری ری رُووو راااا” کہتا اور باقی جلوس "ہُووو ہا ہُووو ہا” کہہ کر جواب دیتا. یہ ہمارا ایسا معمول بن چکا تھا کہ اگر ہم میں سے کوئی اکیلا وہاں سے گزر رہا ہوتا تو لڑکے ہمیں دیکھ کر یہی نعرہ لگاتے کہ یہ ہم مُشٹنڈوں کی پہچان بن گیا تھا.
سردیوں کے دن تھے، اور ہمارا استاد کے گھر جا کر پڑھنے کا وقت ان دنوں مغرب سے ذرا بعد طے تھا. ایک دن ہم اسکول اور پارک والی گلی کے نکڑ پر پینچے تھے کہ ایک گھر کے سامنے بہت سی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں. ہم نے نعرے لگانے کے لئے پَر تولنے شروع کئے تو ہم ہی میں سے ایک نے یاد کرایا کہ ادھر فوتگی ہوئی ہے کل رات واپسی پر ادھر ایمبولینس سے میّت اتاری جا رہی تھی. اب ہم اتنے کافر بھی نہ تھے کہ اس بات کو بھی خاطر میں نہ لاتے. لہٰذا خاموشی سے گزر گئے. ہفتہ اتوار کی چھٹی چھوڑ کر جب سوموار کو پھر اسی نکڑ والے گھر کے پاس سے گزرے تو نظریں خود بخود اسی گھر کی طرف اُٹھ گئیں… ہم اپنے تئیں کفِ افسوس مل کر گزرنے ہی والے تھے کہ اسد نے نشاندہی کی کہ یار اس گیٹ کے ساتھ دیوار کے اندر کتنا بڑا مالٹوں کا پودا ہے جسکا پَھل دیوار سے ابل کر باہر کو جھانکتا ہے… اس مودی کو(قیصر، جو قد میں سب سے لمبا تھا) کہو ہمیں مالٹے توڑ کر دے… پھر کیا تھا، پلان کو حتمی شکل دی گئی … مودی نے اسد کو ہاتھوں پر بلند کیا، اسد نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور بے صبری کا پھل توڑنا شروع کیا… کچھ مالٹے تو توڑ لئے مگر جونہی مالٹے کے درخت نما پودے پر ہلچل ہوئی، گھر کے باسیوں کی نظریں اِدھر اُٹھیں. اور انہوں نے "رکو! کون ہے؟ ابے او رکو!” پُکارا… ساتھ ہی مودی کے ہاتھوں سے اسد زمین پر پٹخا گیا… اور ایک آواز "او بھینس___ بھاگووووو!!!!” کی آواز مودی کے منہ سے نکلی… اس نعرے کا مطلب "اپنی جان بچا سکتے ہو تو بچا لو” سنا اور سمجھا گیا اور اگلے ہی لمحے 12-15 کا ریوڑ دھاگڑ دھاگ بھاگ کھڑا ہوا… میں جو اپنے ہُجم کے اعتبار سے سب سے پھیلا ہوا تھا، سب سے آہستہ بھاگ رہا تھا.. پیچھے مُڑ کر جو دیکھتا ہوں تو اندھیرے میں گیٹ سے نکلتا ہوا دو آدمیوں کا ہیولا سا نظر آتا ہے ایک کے ہاتھ میں ریچھ برابر قد کے کُتے کی زنجیر یا رسِّی پکڑی ہوئی ہے، جبکہ دوسرے کے ہاتھ میں جو چیز ہے اسکا میں فیصلہ نہ کر پایا کہ ڈنڈا تھا یا کوئی اور اسلحہ… میری سپیڈ ٹرین کی طرح بڑھی اور پوری جان لگا کر سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے "پین دی……… کُتتتتتتتےےےےے آئے” کہتا ہوا پارک سے ملحقہ درختوں کے جُھنڈ میں گُھسا… سب نے پیروی کی اور جنگل کے بعد نالے پر بنا وہ سیمنٹ کا تنگ سا بغیر سہاروں کا پُل، جسے دن کو بھی پار کرنا ہمارے لئے مشکل ہوتا تھا، بھاگتے ہوئے پار کر کے سڑک سے ہوتے ہوئے ہم سب مین مرکز میں پہنچے اور پھر وہاں سے میرے محلے میں اکٹھ کیا… صلاح ٹھہری کہ استاد محترم کو فون کریں اور کہیں کہ آپنے گھر سے ٹیوشن سنٹر کا بورڈ اتار دیں… سَر ہماری بات سمجھ نہ سکے اور ہم سمجھا نہ سکے کہ سچ اور جھوٹ کے بیچ کا ملغوبہ جو تیار کیا تھا وہ بہت مضحکہ خیز اور عجیب تھا…
اگلے دن پارک میں اکٹھے ہوئے اور ایک دوست کو آگے بھیجا کہ دیکھو کوئی خطرہ تو نہیں… پتہ چلا کہ اس کوٹھی کے گیٹ کے باہر ایک گارڈ بیٹھا ہوا ہے… ہم نے متبادل راستہ لیا اور سر کے گھر پہنچے… پہلے تو گزشتہ دن کی اجتماعی چھٹی پر اچھی خاصی عزت افزائی سَر کے پورے خاندان سے کروائی… پھر کل سے آج تک کے اجلاسوں میں طئہ پانے والا ملغوبہ سنایا( کہ ہم نے سکول والی گلی کے نکڑ سے مڑتے ہوئے مالٹا توڑنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہمارے پیچھے کتے اور بندوق بردار آدمی لگا دیے جو ہمیں گھر پہنچا کر آئے). سَر کے پلے اب بھی کچھ نہ پڑا اور انہوں نے حکم سنایا کہ میرے سمیت تین چار لڑکے انکے ساتھ اس گھر جائیں گے… ہم کانپتے ہاتھ پاؤں کے ساتھ کچھ دیر میں اس کوٹھی کے صحن میں موجود تھے… وہاں تین چار لوگ امریکن گھانس کے پاس کرسیوں پر بیٹھے کوئلوں کی انگیٹھی سینک رہے تھے. سر خود دعا سلام کر کے انکے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئے جبکہ ہم مجرموں کی طرح کھڑے رہے… سر نے ہماری بات ان لوگوں کو بتائی تو وہ حیرانی سے منہ کھولے آنکھیں پھاڑے ہمیں دیکھنے لگے… ان میں سے ایک موٹے آدمی نے سگریٹ انگیٹھی میں پھینکتے ہوئے سَر سے مخاطب ہو کر کہا "شیخ صاحب مالٹوں کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے جتنے چاہے کھائیں. ہم نے تو انکی شکلیں نہیں دیکھی تھیں، ہمیں تو دیوار سے ہاتھ ہلتے نظر آئے اور پھر ہمارے کون ہے پوچھنے کے بعد گلی میں بھگدڑ سنی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ وہی ڈاکوؤں کا گروہ ہے جو آج کل گھروں میں گھُس کر اسلحے کے زور پر لوٹ مار کر رہا ہے… وہ تو ہمارا گھر فوتگی والا ہے اور کچھ مہمان آئے ہوئے تھے تو ہم سب بھاگ کر نکل آئے… اور شکر ہے کسی نے فائر نہیں کیا… ورنہ ہمارے ہاتھوں کچھ بہت بُرا ہو جاتا… میں معذرت خواہ ہوں شیخ صاحب لیکن یہ آپکے بچے بہت بڑی شیطان کی دُم ہیں… یہ آپکو بہت بڑی مصیبت میں ڈالیں گے” ہم ہزار معذرتیں کر کے وہاں سے لوٹے اور دو ہزار معذرتیں سَر اور انکے گھرانے سے کیں اور مار کھانے سے بچے….
بہت سال بعد پچھلے دنوں وہاں سے گزر ہوا… پارک میں جن پینگھوں پر ہم جھولتے تھے وہ خالی پڑی تھیں اور زبردستی گھروں سے کھیلنے کے لئے لائے گئے بچے بھی بنچوں پر بیٹھے موبائلوں پر پتہ نہیں کن دنیاؤں میں کھوئے ہوئےتھے… دل کیا اونچا سا نعرہ لگاؤں "تارا ری ری رُووو رااا” لیکن جواب دینے والا کوئی نہیں تھا…