کالم

مہنگائی کا رونا

ڈاکٹر عبدالمتین شیخ

ڈاکٹر عبدالمتین شیخ
ڈاکٹر عبدالمتین شیخ

ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا جس دن میں مہنگائی کے حوالے سے چرچا نہ کیا جاتا ہو. مہنگائی کا طوفان اس وقت بڑی شدت سے اپنی آب و تاب پر ہے. اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت مہنگائی قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے. لیکن کیا اس مہنگائی کی پوری کی پوری ذمہ دار صرف موجودہ حکومت یا پچھلی حکومتیں ہی ہیں؟ عوام کا اس میں کوئی کردار نہیں؟
پچھلی حکومتوں پر لعن طعن کرنے سے یا موجودہ حکومت پر گالم گلوچ کرنے سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے. ماضی میں اگر جھانک کر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ جب مافیاز کے موافق قانون سازی کی جا رہی تھی تب عوام اسی طرح خاموش تھی جس طرح وہ اب ہیں. سوشل میڈیا پر چند لوگوں کا کچھ بول دینا عوامی ترجمانی ہرگز نہیں ہو سکتی. اس وقت، یعنی پچھلی حکومتوں کے بنائے گئے تمام قوانین سے نہ صرف وقت کے سیاست دانوں، جاگیرداروں، طاقتوروں نے فوائد حاصل کیے، بلکہ عوامی حلقوں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بڑے تمام تاجروں نے، عام لوگوں نے، نوکری پیشہ افراد نے، سب نے ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کسر نہیں چھوڑی تھی. سب نے ان قوانین کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور جس کو جہاں سے جتنا مالی فائدہ پہنچ سکتا تھا اس نے وہاں سے وہ فائدہ ہاتھوں ہاتھ لیا. ملک کا نقصان ہوا، خزانہ خالی ہوتا چلا گیا اور یوں سالوں گزرنے کے بعد اب پی ٹی آئی کی بھڑکیلی حکومت آئی تو انھوں نے دعووں کے معاملے میں کئی سنچریاں مکمل کیں، لیکن عملاً ایک پٹاخے کی طرح تھوڑا سا بجنے کے بعد پھس ہو کر دھواں دینے لگے، اور اب یہ دھواں اتنا تکلیف دہ ہو چکا ہے کہ سب چاہتے ہیں کہ اس پر پانی ڈال کر اسے بجھا دیا جائے.
ہماری قوم جب پچھلے ادوار میں بے ایمانی، ذخیرہ اندوزی، کاروباری دو نمبریاں، لوٹ کھسوٹ، جعلی کو اصلی کروانے کے کاموں میں مصروف عمل تھی تب وہ خوش تھی، اب انھی کے کرتوتوں کی وجہ سے جب مہنگائی کا طوفان آگیا ہے تو ان کی چیخیں نکل گئی ہیں. ماضی کے علاوہ ابھی حال ہی کی کچھ مثالیں عرض کیے دیتا ہوں. کورونا کی آمد پر وہ ماسک جو پانچ روپے کا ملا کرتا تھا، سو روپے میں بھی بمشکل مل رہا تھا. وہ دوائیں جو سینکڑوں میں تھیں وہ ہزاروں اور لاکھوں میں بکنے لگیں. آٹا چینی کے بحرانوں میں دیکھ لیں، ہر طبقے کے تاجر نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ذخیرہ اندوزی کر کے خوب مال کمایا. ٹماٹر جیسی سبزی کو ہماری قوم کے تاجروں نے نہیں چھوڑا. رمضان المبارک کے مہینے میں تو ثواب کمانے کی دوڑیں لگ جاتی ہیں. کیا کبھی ہماری قوم نے اس طرح کی حرام خوری کے خلاف احتجاج کیا؟ کیوں کریں گے، ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد اس طرح کے کاروبار میں شریک ہوتا ہے. کم و بیش ہماری پوری قوم اس مہنگائی کی حقدار ہے. بے حسی اور لاپرواہی کا نتیجہ اب ہم سب کو بھگتنا ہوگا، پچھلی حکومتوں کے ساتھ مل کر ہم عوام نے بھی خوب مزے لیے ہیں، لوگ لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بن گئے. اب اس مہنگائی پر رونا ہمیں زیب نہیں دیتا.

Leave a Reply

Back to top button