کالم

میری بابڑی کی پارت ہو

ایڈووکیٹ صفیہ لاکھو
Safia Lakhos babaبابا کو میں نے اپنی شادی کے دن 12 اپریل کو دیکھا ایک نہایت شفیق شخصیت  ہر بات کرنے میں بہت اچھے لہجے  میں لفظوں  کی  ادائیگی کرنا مجھے ابھی تک یاد ہے جب میں نے پہلی بار ان کو بابا کہہ کر مخاطب کیا تھا میرے بابا کہنے پر وہ اتنے خوش ہوئے تھے وہ خوشی ان کے آنکھوں سے جھلک رہی  تھی انہوں نے بہت ہی پیار بھرے لہجے سے مجھے کہا کہ بیٹا سب کو خوشی ہے کہ کہ تم نے حق مہر میں 32 قیدیوں کی ضمانت لکھوائی ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ تم نے 32 نوافل حق مہر میں لکھوائے ہیں یہ حبیب صاحب کی نہیں یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اتنے مہذب گھرانے سے رشتہ جڑا ہے  اور اللہ تعالی نے مجھے اتنی خوبصورت و خوب سیرت بیٹی  سے نوازا ہے اور یہ حبیب  صاحب کی پوری عمر کی صبر کا صلہ ہے جو دعا میں نے دل سے کی تھی آج میری پوری ہوئی بابا یمیشہ اپنے بیٹوں کے نام سے صاحب ضرور لگاتے تھے   وہ میرے دیور ادا غفور کو بھی غفور صاحب کہ کر بلاتے تھے اپنے بچوں کو لفظوں میں پیار کے ساتھ ساتھ عزت دینا ان کو خوب آتا تھا ۔
یوں ہی دن گزرتے گئے ہنسی خوشی ہم اپنی زندگی میں خوش تھے  بابا سے روز بات ہوتی اور روز میرے شوہر کو میرے لیے کہنا نہیں بھولتے کہ میری بابڑی کی پارت ہو میرے بابا بچپن میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے اور یہ میری خوشنصیبی تھی کہ بابا کو اپنے بیٹے سے زیادہ میرا خیال تھا میں اسی وقت یہ سوچتی تھی کہ اگر بابا ہوتے تو بھی یہ ہی بولتے کہ میری بیٹی کی پارت ہو جو بابا کبھی ایک دن بھی حبیب کو کہنا نہیں بھولے   اور پھر اچانک سے بابا کی تھوڑی بہت طبیعت خراب  ہوئی ہے  رپورٹ کروانے پر پتہ چلا کہ بابا کو کینسر جیسے موذی مرض نے جکڑ لیا ہے اور وہ آخری اسٹیج پر  ہے گھر میں ایک عجیب سا سماں ہو گیا تھا اک خاموشی سے برپا تھی کیا کریں کیا نہ کریں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا بابا نے کہا کہ بس مجھے مجھے  صفیہ اور حبیب صاحب کے پاس چھوڑ کر آؤ میں وہاں رہنا چاہتا ہوں ہوں بابا کو پتا نہیں تھا کہ مجھے یہ بیماری ہے کسی سے سنا کہ حیدرآباد میں ڈاکٹر اسلم ہیں وہ بھی  اچھے  ہیں ہم لوگوں نے ادا غفور کو کہا کہ آپ لوگ وہاں سے آتے ہوئے  ڈاکٹر اسلم کو دیکھاتے ہوئے آئیں جو اب ہم سوچتے ہیں کہ شاید یہ ہم نہ کرتے تو ہو سکتا ہے بابا مزید کچھ ہمارے پاس ہوتے  برحال زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے یہاں سے بابا کی بیمارئ اور ڈاکٹرز کی طرف ہم سب کی سفر زندگی شروع ہوئی ایک امید سے جاگئ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹراسلم بابا کو ٹھیک کر دیں انہوں نے ایک مہینے کی دوائیاں دیں اور کہا کہ مجھ سے چیک کروانے آنا بابا کی بیماری کے دنوں میں ہمیں پتہ چلا کہ اس ڈاکٹر کے پیشے میں کس طریقے سے کچھ لوگ مسیحا ہیں تو کچھ لوگوں نے بازار گرم کی ہوئی ہے

کیسے کیسے  غریب لوگوں کو کس کس طریقے سے میڈیکل کی مارکیٹ میں میں ان کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے ہیں کوئی بھی  بیماری ہو مگر دیمک کی طرح مریض اور ان کے ساتھ والے انسانوں کو کھا جاتی ہے  میں نے سب سے پہلے وہ رپورٹس اپنی دوست ڈاکٹر صدف لنجار کو جو کہ میڈیکو لیگل آفیسر ہے اس کو بھیجیں اس نے اسی وقت جلد از جلد مجھے کال بیک کی اور مجھے سمجھایا کہ ادا کو سمجھاؤ کہ بابا کے کینسر آخری اسٹیج پر ہے اور ان کو کسی دوائی کی ضرورت نہیں ہے صرف پیار کی ضرورت  ہے بس ان کو دل بھر کے جی لینے دو وہ جو بھی مانگتے ہیں ان کو تو جو بھی کھانا چاہتے ہیں جہاں رہنا چاہتے ہیں جہاں جانا چاہتے ہیں ان کو صرف پیار اور پیار کی ضرورت ہے مجھے بھی سمجھایا کہ دیکھو یہ ایک ایسا اسٹیج ہوتا ہے جس میں دیکھ بھال کی بہت ضرورت ہوتی ہے تم سے جتنا بھی ہو سکے تو بابا کی دیکھ بھال کرو تم بھی ایک اچھے طریقے سے دیکھ بھال کر کے ڈاکٹر بن سکتی ہو میڈیکل کے حساب سے ابھی ان کو کسی بھی دوائی کی کوئی ضرورت نہیں ایک چپ سی لگ گئی تھی میں اور میرے جیون ساتھی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم لوگ کیا کریں کیا نہ کریں بابا حیدرآباد سے دوائیاں لے کر ہمارے گھر میں پہنچ گئے تھے مجھے ایک ایسے لگ رہا تھا کہ  یہاں پر آکر دنیا کی ہر خوشی ان کو مل گئی ہے ہے پیار محبت کی باتیں نہ دن کی نہ رات کی سوچ۔  لوگوں کا آنا جانا اور بابا ہر کسی سے میری تعریف کرنا نہ بھولتے ۔   مجھے لگ رہا تھا کہ ان کے لیے صحت مند غذا بہت ہی اہم ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کو ٹھیک کر دیں لیکن شاید یہ میرا وہم تھا ساتھ جو دوائیاں چل رہیں تھیں تو ان کا اثر بھی ابھی ہو رہا تھا بابا کو دن بدن کمزوری ہوتی جا رہی تھی اس دوران ہم نے  میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں  ڈاکٹر اصغر حسین سے ملے بہت انتظار کے بعد کے بعد اس نے بھی ہم سے وہی بات کی کہ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا آپ کے بابا کو صرف پیار اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے ان کی اچھی دیکھ بھال کرو اور دعائیں لو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں میں نے ان سے پوچھنا چاہا کہ کہ اس کینسر کی آخری سٹیج پر کس طرح کی تکلیف ہوتی ہے کیا یہ بھی اس طریقے سے ہوتی ہے جیسے کینسر آہستہ آہستہ پھیلتی ہوئی جاتی  ہے اور پورے انسان کے جسم کو لے لیتی ہے تو ہو سکتا ہے  ہڈیوں تک ابھی کینسر نہ گیا ہو بس ہم وہاں سے ناامید ہو کر واپس آئے ایسے لگ رہا تھا کہ پوری دنیا ختم ہو گئی  آہستہ آہستہ بابا دن بدن کمزور  ہوتے جا رہے تھے نماز ایک وقت بھی نہ چھوڑتے انکو بہت اچھا لگتا تھا کہ میری بہو کو تاریخ و ادب کی بہت معلومات ہے  مگر ہم کیا کریں کیا نہ کریں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا بابا کو آج ہمارے گھر ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا اچانک سے ان کی طبیعت خراب ہوگئی ڈاکٹر اسلم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو بہت بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹرز حضرات کال ریسو کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے مجھے اس وقت احساس ہوا کہ کس طرح سے ہم وکیل فلاحی ٹائم دیتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ جہاں پر  ڈاکٹر نور سومرو، ڈاکٹرصدف لنجار ، ڈاکٹر آفتاب لاکھو ،ڈاکٹر فیروز مھر، ڈاکٹر سردار خاتوں اور دوسرے بھی ایسے مسیحا ڈاکٹر ہیں وہیں یہاں پہ ایک ایسے ڈاکٹر بھئ ہیں  کہ اس طریقے کے ڈاکٹر ہیں جب کہ میں ان کو میسج کر رہی تھی کہ پاپا کی طبیعت بہت خراب ہے تو اب ہم کیا کریں کیا نہ کریں میسج سینڈ کیے جارہے تھے لیکن ان کا کوئی رپلائی نہیں تھا آخر میں مجبور ہو کر میں نے اس کو میسج کیا کہ آپ واٹس ایپ پر صرف بات کر لیں تو میں آپ کو ان کی فیس بھی ادا کرتی ہوں لیکن انھوں نے ایسا کوئی بھی رسپونس نہیں دیا اورعلاج کا  یہ طریقہ بہت برا ہے ڈاکٹر تو ایک مسیحا ہے یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں لوگوں کو امید ہوتی ہے جیسے ہی وہ ڈاکٹر کے پاس جاتیں ہیں تو وہاں سے واپس آدھے  راستے میں ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں  مگر یہاں پر تو بات ہی الگ تھئ ڈاکٹر اسلم کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ ایک مریض کو میں نے ایک مہینے کے لئے دوا دی ہے جس کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے تو اپس اور ڈائون ان کی زندگی میں آئیں گے بہرحال اللہ ان کو بھی خوش رکھے  اچھے برے لوگ ہماری وکالت کہ پیشے میں بھی ہیں اس کے بعد جب کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا بابا کو کہاں لے جائیں کیو نکہ سب ڈاکٹرز منع کر چکے تھے پھر اس کے بعد لیاری جنرل ھاسپیٹل میں ڈاکٹر فیروز سے ملاقات ہوئی جو نییک انسان تھے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اونکلوجی  ڈپارٹمنٹ تو نہیں ہے مگر میڈیسن آپ کے بابا کی چل رہی ہیں تو تو ہم یہ کر سکتے ہیں کہ بابا  کو ایڈمٹ کرتے ہیں اور ویسے بھی ان کو کئیرکی  ضرورت ہے  ہم انکے بہت شکر گزار ہیں پوری گھر والوں کو اور ہم کو بھی اس اسپتال میں رہنا صحیح نہیں لگ رہا تھا مگر بابا کو ہاسپیٹل اتنی پسند آئی وہاں پر اسٹاف پورا اتنا اچھا بابا سے اتنا ہنسی مذاق میں بات کرتے بابا سے پیار سے بات کرتے بابا کو پیار سے اٹھاتے میں بار بار جب ان کے پاس جاتی میں ان کو بولتی آپ آئیں بابا کو بولیں کچھ کھائیں وہ بابا کے پاس آتے ان کو بولتے بابا آپ کھانا کھائیں تو ہم آپ کو گھر بھیجیں گے ویسے ہم ویاں 24 گھنٹے بھی نہیں رکے تھے مگر انکا بابا سے پیار سے بات کرنا ابھی بھی نہیں بھولی   وہاں پر جب بابا کی ہسٹری لینے کے لئے آئےتو انہوں نے کہا کہ آپ میں سے کوئی آئے تو میں ان کے پاس گئی تو میں بتا تی گئی انھوں نے پوچھا آپکے خاندان میں اس سے پہلے کسی کو یہ بیماری تھی میں نے کہا یہ میرے شوہر ہی بتا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کیوں آپ کے شوہر کیوں بتائیں گے آپ کے بابا ہیں تو آپ بتائیں گے میں نے کہا نہیں وہ میرے بابا نہیں  میں ان کی بہو ہوں تو ڈاکٹر نے
پین نیچے کر کے میری طرف دیکھا اور کہا کہ بالکل سمجھ نہیں آرہا کہ اس دور میں بھی بھی ایسی بھی کوئی بہو ہے مجھے  تو آپ  کے شوہر بابا کے داماد لگے تھے اور آپ ان کی بیٹی لگ رہیں تھیں کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ آپ ان کی بہو ہیں اس طریقے سے پریشان باربار آنا اسٹاف کو بلانا بابا کے کھانے کے لئے۔ بالکل میں نے کہا کے بابا نے کبھی مجھے بابا نے کبھی مجھے ایسا محسوس ہی نہیں ہونے دیا یا کہ میں ان کی بہوہوں انہوں نے  سدا مجھے اپنی بیٹی کی طرح سمجھا ہے ہمیں وہاں کچھ سمجھ نہیں آیا 24 گھنٹے سے پہلے ہی ہم بابا کو گھر واپس لائے  اور اس دوران  کراچی کے 10 مشہور کینسر اسپیشلسٹ جن کو گوگل پر سرچ کیا ان سے اپوائنٹمنٹ لی کہیں سے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا گوگل سرچ کیا تو ٹاپ ٹین میں ڈاکٹر نور محمد سومرو بھی تھے ہم نے ان سے اپائینٹمنٹ لی  مہں اپنی دوست زائرہ کے ساتھ  ڈاکٹر پلازہ ان کی کلینک میں چلے گئے  جبکہ حبیب کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس بابا کی فائل لے کر گئے ہم لوگوں نے نے بابا کی فائلز کی چار کاپیاں بنوائی ہوئیں تھیں جہاں سے بھی کسی ڈاکٹر کا پتہ چلتا تس ہم وہاں چلے جاتے  مگر ناکام  واپس لوٹ کر آتے تے ڈاکٹر نور کے پاس جیسے ہی ہم گئے بظاہر ایک خاموش طبع اور سخت مزاج انسان لگے  مگرانھوں نے جیسے ہی بابا کے فائل پڑھنی شروع کی  تو انہوں نے مجھے کہا  کہ اب آپ کیا چاہتے  ہیں  آپ کو پتہ تو سب ہوگا دوائیوں کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں لیور کینسر آخری اسٹیج پہ ہے عمررسیدہ بھی ہیں انہیں بس دعاؤں کی ضرورت ہے انہوں  نے بہت وقت دیا ہمیں اور بہت ہی شفقت بھرے انداز سے سمجھایا ہم وہاں سے واپس آئے تو مجھے راستے میں ہی کہیں سے پتا چلا کہ ڈاکٹر نور سومرو ایک ہسپائس کئیر سینٹر میں بھی ہوتے ہیں تھوڑی بہت معلومات لینے کے بعد پتا چلا کہ سابقہ جسٹس ماجدہ رضوی جو ویسے بھی اتنا بہترین کام کر رہی ہیں  میں گھر آئی آتے ہی اپنے شوہر کو کال کی اور ان  کو تفصیل بتائیں  میں نے کہا کہ آپ لیگل ایڈ آفس میں ہیں  تو جسٹس ماجدہ رضوی کو ضرور جانتے ہوں گے  انہوں نے وہاں اپنی ساتھی کولیگ شاہدہ  سے بات کی  ایک نفیس دل شخصیت رکھنے والے جسٹس ناصر اسلم زاہد جنہوں نے نے اپنی اپنی پوری زندگی فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے وقف کردیں  کبھی جیل میں بند پاکستان کے قیدیوں نے یہ سوچا تک نہیں ہوگا کہ وکیل جیل میں خود آکر ہم سے ملیںگے مگر جسٹس ناصر اسلم ناصر اسلم زاہد نے یہ کر دکھایا ۔لوگ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں ہتو بھی بھی ان کی کی پبلسٹی کرواتے ہیں مگر ہسپائس کئیر سینٹر کی میڈم ماجدہ نے کبھی پبلسٹی ہی نہیں کی ایسے بھی لوگ انسان ذات کی خدمت کرتے ہیں۔  جسٹس ناصر اسلم زاہد صاحب نے جلدی جلدی میڈم ماجدہ رضوی سے بات کی پھر شاہدہ نے فون کیا کہ  پریشان مت ہو اللہ تعالی بابا کو جلدی سے ٹھیک کر دیں گے اور حبیب بھائی تو سب کا بھلا کرتے ہیں اللہ انکا بھی بھلا کریگا ایسے لگ رہا تھا تھا کہ میرے شوہر کی آفس کی پوری ٹیم ان کی  اصل فیملی ہو۔ ہم المحراب ہسپائس کئیر سینٹر میں آئے  ایک بہترین عملہ بابا سے پیار سے مخاطب ہوتے ہوئے ہمیں بھی خوش آمدید کہا میں یہ دیکھ کر حیران تھی کہ ایسا کوئی ہسپائس کئیر سینٹر بھی  ہے مگر  اس کے بعد ہم لوگوں نے آغا خان ہسپتال اور شوکت خانم جیسے ہسپتال کا بھی وزٹ کیا کیا ہمیں  وہاں پہ یہ جان کہ شاک  لگا جب ڈاکٹر نے کہا کہ بابا کو کو کینسر کی دوائیوں کے سائیڈ فیکٹ نے  بھی کمزور کیا ہے لہذا اگر مناسب سمجھیں تو وہ بند کر دیں یہاں پر میرے دیور نے تھوڑا جذباتی ہوکر آغا خان میں ان کے ڈاکٹر کو کہا تو آپ کیا بولتے ہیں کہ ایک زندہ انسان کو ہم ایسے ہی چھوڑ دیں مختلف ہسپتالوں میں  آنا جانا ہم لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب ہم کیا کریں میں بیت السکون کا نام لکھنا

یہاں پہ ضرور سمجھو گی میں اور میرے شوہر وہاں بھی گئے گئے میں بیت السکون کے لیے بالکل بھی راضی نہیں تھی مگر میرے شوہر بہت پر امید ھو کر گئے تو میں ان کے ساتھ گئی وہاں پر جیسے ہی ہم کاوئنٹر پر پہنچے تو ایک عورت روتی ہوئی آئی کہ میں اپنے شوہر کو لائی ہوں اور وہ باہر ایمبولینس میں  آکسیجن پر ہے آپ ان کو ایڈمٹ کرے آپکا مریض آج داخل نہیں ہوسکتا پیر والے دن آپکے مریض داخل ہو سکتے ہیں وہ عورت بیچاری ان کو منتیں کرتی رہی اور اور کسی ڈاکٹر کا ریفرینس بھی دیا مجھے نام یاد نہیں آرہا  مگر اس لڑکی نے ایک بھی نہیں سنی میں یہاں پر ان کے ہسپتال کا اسی لئے لکھ رہی ہوں ہو جو کہ کرب اور دکھ مجھے اس عورت کو اس وقت  ہو رہا تھا مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ کس طریقے سے  لوگ بیچارے تڑپ رہے ہیں ہیں مگر اگر پیار سے اور ایسے مریض جن کی  آخری اسٹیج پر زندگی ہو تو ان کو تھوڑا سا اچھے طریقے سے شفقت سے دینا چاہیے  یہ سب میں نے آغا خان ہسپتال میں بھی دیکھا وہاں پر بھی  اسٹریچر پر ایک لڑکی اپنی ماں کو لائی تھی تھے مگر کسی ڈاکٹر تو کیا نرس تک نے بھی اتنا کوئی رسپونس نہیں دیا اس کے بعد بعد ھم لیاقت نیشنل ہسپتال میں بھی گئے ہم جہاں بھی جاتے تھے بس بابا کی فائل لے کر آتے تھے ان دنوں میں بابا ال محراب میں ہوتے تھے جن کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور بہت ہی پیارے طریقے سے ڈاکٹر دانیال ڈاکٹر نصرت اور اور دوسرے لوگ جو ہوتے تھے بہت ہی اچھے طریقے سے دیکھتے تھے المحراب میں ڈاکٹر نور محمد سومرو جو کہ سول ہسپتال کے ایم ایس پی ہیں روزانہ کے وزٹ پر آتے تھے لیاقت نیشنل ہسپتال میں میں کینسر کے ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھی  خاتون نے  مجھ سے مختلف عجیب و غریب قسم کے سوال کیے میں نے ان کو کہا کہ آپ اپاوئنٹمنٹ دے دیں ہم ڈاکٹر سے بات کرنا چاہتے ہیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کون سے ڈاکٹر کے ریفرنس سے آئی ہیں  میں نے جواب میں کہا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے  آپ اپائنٹمنٹ دے دیں تو ہم ڈاکٹر سے ملیں بہرحال وہاں سے بھی ہم ناامید ہو کر ہی واپس آئے  اس دوران  میڈیکیئر ہسپتال میں  ڈاکٹر عدیل احمد سے بھی ملے جنہوں نے بہت اچھا رسپانس دیا اور بابا سے ویڈیو کال پے طبیعت بھی پوچھی ڈاکٹر منیر حسین جن کو37 سال کا  تجربہ تھا ان سے بھی ملے اچھا رسپانس دیا ڈاکٹر محمد علی میمن سے بھی ملے انہوں نے بھی اچھا ریسپونس دیا کیا مگر ان سب کا ایک ہی جواب  تھا دوا سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے بابا شروع کے دنوں میں میں اٹھ کے نماز پڑھتے تھے پھر بیٹھ کر اس کے بعد جب ان کی طبیعت شدید خراب ہو گئی تو بھی وہ لیٹ کی نماز  پڑھتے تھے ان کے زبان پر اللہ کا ذکر ضرور ہوتا تھا کیسے 12 اپریل سے بابا میری زندگی میں آئے اور دو دسمبر 2021 کا ڈوبتا سورج  بابا کو  بھی ساتھ لے گیا
وہ جو سویا تو اس دن تو نہ اٹھا کبھی
رہی سوچتی میں کہ انکو جگاوں کیسے
پوچھتے ہیں یہ جو مجھ سے کہ تو کیسا تھا
تیری عظمت کا انکو بتاوں کیسے
حبیب اب روز مجھے یہ ضرور بولتے ہیں بس اک ادھوری سی آس ہے میری کہ اک بار بابا آکر بول دیں کہ ” میری بابڑی کی پارت ہو”

مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ کس طریقے سے لوگوں کے اپنے  جب بیمار ہوتے ہیں تو ان کو مختلف طریقے کے ڈاکٹرز ملتے ہیں جو کہ مسیحا بھی ہوتے ہیں اور اور ڈاکٹرز کی روپ میں میں افسوس کے ساتھ  لکھنا پڑ رہا ہے کہ کہ بدتمیز اورقاتل بھی ہوتے ہیں ان کے پاس  بولنے کے لئے  پیار بھرے الفاظ  نہیں ہوتے  لوگ اپنی فیس دے کر کر ان کے پاس جاتے ہیں اور وہ صرف اس پیسوں کے بدلے میں ان سے بات پیار سے بھی نہیں کرتے ۔

"عجیب سلسلہ ہے یہ عجیب سی یہ مسیحائی
صوفی کو کبھی یہ بات سمجھ نہ آئی
الفاظ لکھتے لکھتے  وہ ماں کی بیٹی یاد آئی
جس نے ہاتھ جوڑ کر ڈاکٹرز کو اپنی صدا سنائی۔

Leave a Reply

Back to top button