حوا کی بیٹی
ایڈووکیٹ صفیہ لاکھو۔
ہم اس معاشرے میں جہاں بیٹیوں کو تعلیم دینا فخر سمجھتے ہیں ۔مگر اس شعور والی دنیا میں ہونے کے باوجود اگر عورت اپنی مرضی سے کہیں جیون ساتھی تلاش کرتی ہے تو بھائی اور والد کی غیرت جاگ جاتی ہے اپنے بڑوں کی یاد آ جاتی ہے کہ ہمارے بڑوں نے ایسا نہیں کیا تو ہم کیوں کریں ۔
اسلام میں ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ ولی کی ہی رضا مندی ضروری ہے لڑکا لڑکی راضی نہ ہو تو بھی نکاح ہو جاتا ہے یہ کیسا ظلم ہے اسلام میں تو یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ صرف ولی کی راضی ہونے سے نکاح ہو جاتا ہے نکاح تو دو وجودوں کی رضامندی مندی کا نام ہے جبکہ جھوٹی رسموں اور اناؤں کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی تو کبھی بھی نکاح کرنے سے پہلے لڑکی کی رضامندی یا اس سے اجازت نہیں مانگی جاتی ۔خدا کے واسطے اپنی بیٹیوں پر رحم کرو جو آج بھی آپ کی جھوٹی اناؤں کی وجہ سے ایک خوفناک زندگی جی رہی ہیں جو اتنی تعلیم ہونے کے باوجود ایک اچھی نوکری ہونے کے باوجود اپنی جیون ساتھی کا انتظار کر کر کے تھک گئی ہیں اور نفسیاتی ہوگئی ہیں کیونکہ خاندان کی عزت کا مسئلہ ہے ۔
حوا کی بیٹی کی کہانی
میری ایک افسر دوست ایک دفعہ مجھ سے ملی اور کہا یار تنہائی نے مار دیا ہے میں نے اس کو کہا آزاد ہو خود مختار ہو تمہارا کلاس میٹ ابھی تک تمہارے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے بڑے کرب سے اس نے جواب دیا کہ اس کو ایک مہینہ پہلے میں نے بول دیا کہ میرا انتظار نہ کرو کسی اچھی لڑکی سے شادی کر لو میں تمہارے لئے نہیں ہوں اس نے کل ہی کسی دوسری لڑکی سے منگنی کر لی ہے اللہ اس کو خوش رکھے یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے غصے میں کہا پاگل ہو گئی ہو ؟کیا یا ر اتنی بڑی نوکری ہونے کے باوجود اور اللہ نے تمھیں اتنی عزت دی ہے اور وہ بچارا اتنے سالوں سے تمہارا انتظار کر تا رہا ۔پھر کیا کروں ۔
گھر میں میں جیسے ہی اس کی بات کی تو جیسے قیامت آ گئی بھائیوں کے امی ابو کو طعنے شروع ہو گئے کہ ہم نے تو کہا تھا ایسا ہو گا لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے بہن نے تعلیم حاصل کرکے باہر شادی کر لی اور پ پھر چھوٹی بہن کی پڑھائی بھی روک لی گئی کہ یہ کیا کارنامہ کرے گی ۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ خاندان کی اتنی پڑھی لکھی ہونے کے باوجود دنیا کی رسموں کے آگے میری محبت ہار جائے گی اور میرے محبوب کے آخری لفظ تھے کہ تم سیٹ اور پیسے کے نشے میں مجھ سے بے وفائی کر رہی ہو اصل میں بے وفا لڑکا لڑکی نہیں ہوتے بے وفا تو حالات ہوتے ہیں۔ میں اتنی بد قسمت ہوں جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
12جون چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن
کاش کسی کسان کی بیٹی ہوتی تو اتنا دکھ نہ ہوتا کہ میرے بابا شعور کی دنیا میں ہوتے ہوئے بھی ایسے کر رہے ہیں ہیں مجھے محسوس ہوا کہ وہ درد کی کی ایک کرب سے گزر رہی ہے ۔ صوفی میں مر گئی ہوں میں مرنا چاہتی ہوں اس سے پہلے کہ یہ لوگ مجھے پاگل کہہ کر پتھر لگانا شروع کریں وہ مجھ سے گلے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ،میں نے اس کو کہا اتنا کچھ ہو گیا مجھے کیوں نہیں بتایا ۔ میں تمہارے بھائی سے بات کرتی جو عورتوں کے حقوق والی تنظیم میں ہے تم کیا سمجھتی ہو میں نے اس کو کچھ نہیں کہا۔ ہاں اس نے تو تو شرافت کی کی دیواریں توڑ دیں اور میرے کمرے میں آ کر پسٹل لگا کر کہنے لگا کہ تم کا ری ہو وہ تو اماں کی چییخوں پر گھر والے جاگ اٹھے اس وقت دل کہہ رہا تھا کہ کہ کاش مر جاؤں۔
اماں کے الفاظ نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا جو میرے بھائی کو بول رہی تھی کہ جس بہن کی کمائی سے آج اس منزل پر پہنچے ہو میں اس کو تمہارے ہاتھوں ذلت کی موت نہیں دینے دوں گی ۔ ایسے گنہگار نہ ہوتے ہوئے بھی میں گنہگار ہوگئی۔ بھائی کا کہنا تھا کہ عورتوں کی تنظیم میں صرف تنخواہ کے لیے ہوں یہ نہیں سمجھنا کہ میں تم کو اپنے خاندان کی رسومات کو پامال کرنے دوں گا۔اسی بھائی کا تم نے ہی ساتھ دیا تھا جب سارا گھر اس کے خلاف تھا کیونکہ اس کی منگنی تمہارے خالہ زاد سے کی ہوئی تھی ۔ ہاں میرے اسی بھائی نے کہا جب تک میں زندہ ہوں اپنے خاندان کی عزت خراب نہیں ہونے دوں گا ۔ مگر جب تمہاری خالہ زاد کو چھوڑا اور دوسری لڑکی سے شادی کی تب اسکو اپنی خاندانی رسمیں ور عزت یاد نہیں آئی بس صوفی وہ لڑکا ہے اور میں لڑکی ہوں ہاں یار میں لڑکی ہوں
اس کی آواز میں بہت کرب تھا میں نے اس کو کہا کہ تمہیں کسی سائکائٹرسٹ کے پاس جانا چاہیے
کیا فائدہ کیا وہ یہ سب مسائل حل کرلیگا۔
میں نے اس کو کہا ہمت کرو اللہ تعالی بہتر کرے گا اس جھوٹی انا اور رسموں کے پیچھے کتنی ہوا کی بیٹیاں موت کے منہ میں جا چکی ہیں اب زندگی بوجھ لگتی ہے دل کرتا ہے کہ عمر کے حصے میں کوئی اماں بولنے والا ہو تمہیں پتا ہے کہ ارم کی موت طبعی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے چاچا نے اس کو مارا تھا ۔ او میرے اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ارم کی فیملی تو بہت ہائی فائی اور ارم باہر پڑھنے کے لیے بھی گئی ہوئی تھی تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اسکو باہر ہی کوئی فیملی فرینڈ پسند آگیا گھر والوں نے کہا یہ نہیں سوچنا کبھی بھی کیونکہ تمھارا رشتہ چچازاد سے کیا ہوا ہے پھر اس نے اس لڑکے سے باہر نکاح کر لیا مگر وہ پاگل اس بات سے بے خبر تھی کہ اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلے گا اس کی ماں نے اس کو کہا کہ کسی کو پتہ نہیں چلا ابھی تک تمہارے نکاح کا اور ہماری عزت کا مسئلہ ہے تم ابھی واپس آ جاؤ تو ہم اپنے گھر سے تمہاری رخصتی کروائیں اور ہماری عزت بچ جائے۔
میں نے اس کو بہت منع کیا کہ جہاں بھی ہو خوش رہو خدا کا واسطہ ہے پاکستان نہ آؤ مگر وہ اپنی ماں باپ کو دیکھنے کے لئے بہت بے چین تھی میری ایک بھی نہ سنی جس رات وہ گھر آئی صبح کو پتہ چلا کہ ارم کی موت ہوگئی ہے پتہ نہیں وہ سب اچانک کیسے ہوگیا اس شام اس نے مجھے کال کی تھی کہا تھا کہ چاچا آیا اور مجھے بول کہ گیا کہ تم میری بہو ہو یہ کبھی بھی نہیں سوچنا کہ تمہیں کسی اور کی بہو بننے دوں گا سوچ لو ایک رات کا ٹائم دیتا ہوں ہو یار مجھے بھلے گھر والے مار دیں جس کی ہوں اس کی ہوں میں نے اس کو کہا کہ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ نہ آؤ۔
نہیں آتے مجھے یاراماں نے رو رو کر بلایا تھا اب بولتی ہے ہے پتہ ہوتا کہ ایسی نکلو گی تو پیدا ہوتے ہی مار دیتی۔ میں موقع دیکھ کر اپنے شوہر کے پاس نکل جاؤں گی اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی ہوگی جس کی وجہ سے اس کو مار دیا گیا ہوگا ۔ اور صوفی میں ارم کی طرح موت نہیں چاہتی ور اگر کلاس میٹ سے بغاوت کرکے شادی کرتی ۔ تو بھی کب تک روپوشی کی زندگی گزارتی پوری عمر اس خوف میں ہوتی کہ اچانک میں یا میرے بچے یا پورا خاندان کسی ظالم کی گولیوں سے مر جائیں گے اور ہمارا سماج پسند کی شادی کو ویسے بھی اچھا نہیں سمجھتا ۔یہ داغ لے کر کب تک جیتی بس محبوب کا بیوفا والا الزام اٹھانا صحیح لگا ہم تو شاہ لطیف کی سورمائیں ہیں پھر یہ سماج ہمارے وجود کو کیوں ریزہ ریزہ کر رہا ہے ہمارے احساسات ماردیتاہے ۔ زندگی بوجھ لگنے لگی ہے کہیں پر ہمیں وٹے سٹے میں دیا جاتا ہے کیوں؟
کیوں شادی بھائی کریں اذیت ہم اٹھائیں؟
کہیں پر ہم معافی مانگنے کے لیے جائیں
خون مرد کریں اور ہم اپنی عزت نفس کو ماریں کیوں؟
کیا ہماری خواہشیں معنی نہیں رکھتی؟
ہمارے کیس کو کون سی عدالت میں چلاؤگی اگر ہمیں حق دلانے کا سوچا بھی تو پتہ نہیں یہ معاشرہ تمہاری راہ میں کیا رکاوٹیں ڈال دے کیونکہ یہ ہم سے ڈرتے ہیں کہ جب ہم اپنے حقوق کی حاصل کرنے کے لیے نکلی تو ان کی کمزوریاں ظاہر ہو جائیں گی۔
میرے پاس اس کو سوائے ہمت بڑھانے کے کوئی الفاظ نہیں تھے بس یہی سوچ رہی تھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود زندہ ہیں اس جہان میں یہ بڑا معجزہ ہے ۔