مضمون نویسی

ریڈیو کا عالمی دن: اردو کے فروغ میں ریڈیو کا کردار

Importance of Radio

عدنان علی

عدنان علیاردو ایک ایسی زبان رہی ہے جس کی تاثیر دنیا کے ہر موڑ اور مقام پر پائی گئی ہےـ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب سے دنیا وجود میں آئی تب سے اُردو زبان کا بھی وجود تھاـ اردو زبان، انگریزی، روسی اور چینی زبان کے بعد دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو مختلف زبانوں یعنی فارسی، عربی اور مختلف علاقائی تہذیب کا ایک منفرد ملاپ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں مختلف تہذیبوں اور رنگوں کا بہترین امتزاج نظر آتا ہےـ اردو زبان فارسی اور عربی سے لے کر دنیا کے منفرد تہذیبوں پر اپنے اثرات رکھتی ہےـ اردو نہ صرف برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی زبان تھی بلکہ ہندوؤں کی بھی زبان تھی جس کی شروعات بھی ہند و پاک سے ہوئی اور پھر دنیا کے ہر ایک کونے تک پھیل گئی ـ اردو زبان کا اسلام سے بھی گہرا تعلق رہا ہے یہی وجہ تھی کہ عربی زبان میں لکھے گئے قرآن مجید کو اُردو میں ترجمہ کیا گیاـ قرآن کریم کی متعدد تفسیریں لکھی گئیں، نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارک پر کئی جلدیں مرتب کی گئیں اور احادیث نبوی ﷺ کے لاتعداد مجموعے چھاپے گئےـ اُردو زبان ایک منفرد اور شہد سے زیادہ میٹھی زبان ہے جسے جب کوئی بولے تو لگتا ہے پھولوں کی مہک نچھاور کر رہا ہوـ جسے جب کوئی لکھے تو لگتا ہے کہ جیسے کاغذ پر عنبر چھڑک رہا ہوـ اقبال اشہر نے اس قومی زبان کی فریاد کو کیا خوب بیان کیا ہے:
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلمان نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
یہ انیسویں صدی کے نصف آخر کا دور تھا، جب سائنس و ٹیکنالوجی انسان کی سوچ سے زیادہ ترقی اور بلندیوں کے مراحل کو طے کر رہی تھی ـ جہاں ٹیلی گراف، ٹیلی فون اور وائرلیس جیسی انوکھی اور انسان کو حیرت میں ڈالنے والی ایجادات کا جنم ہو رہا تھا بالآخر ایجادات کی اُسی زنجیر اور کڑی نے ریڈیو کو بھی دنیا میں دریافت کیاـ ریڈیو جس کی آواز دنیا کے شروع والے حصے سے لے کر، آخری حدود تک جا پہنچتی ہے ـ ریڈیو جس کو دیہات کا ایک چرواہا اپنے گلے میں ڈال کر نشریات ہونے والے گیتوں پر رقص کرتا ہے ـ ریڈیو جس کو اُسی سال کا بوڑھا کان لگا کر سنتا ہے ـ یہی ریڈیو اُس بوڑھی عورت کا بھی ایک بہترین ساتھی ہے جو اپنی زندگی کے آخری ایام ریڈیو پر چلتی ہوئی مدہم موسیقی کے ساتھ گزار دیتی ہے ـ
اُردو ہمیشہ سے ہی ترسیل اور رابطے کا ذریعہ رہی ہے جس نے مختلف مراحل طے کر کے ادبی اور صحافتی زبان کا درجہ بھی حاصل کیا ـ بقول پروفیسر احتشام حسین ’’ہر زبان کی طرح اردو کو بھی سماجی ضروریات نے جنم دیا جس میں آہستہ آہستہ تہذیبی خیالات اور ادبی تخلیقات کے لیے جگہ بنتی گئی۔ اردو کو تاریخ نے جنم دیا، اس کے نشوونما کے لیے ماحول پیدا کیا اور ایک ایسے معیار پر پہنچا دیا کہ اٹھارہویں انیسویں صدی میں متعدد ملکی اور غیر ملکی علما نے ’ہندستانی‘ کی شکل میں اسے ملک کی محور زبان کا لقب عطا کیا۔‘
برصغیر میں ریڈیو کی نشریات کے لیے ایک ایسی زبان کی ضرورت تھی، جسے ہر عام شخص سمجھ سکے اور اردو کے علاوہ پاک و ہند میں کوئی ایسی زبان نہ تھی جو سماجی زندگی میں رابطے کا ذریعہ ہو اور یہ اُردو ہی تھی جس کے ذریعے تحریری اور بول چال کا کام ہوتا تھا لہذا یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ اردو اور ریڈیو کا شروع دن سے باہمی تعلق رہا ہےـ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے، ایم، یُو) کے شعبۂ اردو کے سابق سربراہ اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازم کی حیثیت سے دس سال کام کرنے والے پروفیسر طارق چھتاری کے مطابق برصغیر میں ١٩٣٦ء میں پہلی بار آل انڈیا ریڈیو کے نام سے ریڈیو کی نشریات ہوئی،جس کا ڈائریکٹر جنرل پطرس بخاری اور اَن کے چھوٹے بھائی احمد بخاری اسٹیشن ماسٹر تھے ـ اِن دونوں بھائیوں نے اُردو زبان کو ریڈیو کے ذریعے دنیا کے مختلف علاقوں میں پہنچایا ـ پطرس بخاری نے اُردو زبان کو ریڈیو کے ذریعے تابانی بخشی اور تمام اُردو زبان کے ادیبوں کو اُردو رائٹرز کی حیثیت سے دعوت دی ـ اُردو ادیب اپنی تحریروں کو آواز کی شکل دیتے تھے ـ یہ اُنہی لوگوں کی محنت تھی کہ ریڈیو کے ذریعے نہ فقط اُردو زبان کو فروغ ملا بلکہ اُردو ادب کو بھی بہت سارا فائدہ ملا جیسا کہ ٹاک، فیچر اور دوسری نوعیت کے پروگراموں نے اُردو ادب کو ایک مظبوط ڈھال دی ـ اِن ادیبوں نے نہ صرف اردو زبان میں ڈرامے لکھے بلکہ مختلف پروگراموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے جن میں سعادت حسین منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدل، شوکت تھانوی، انصار ناصری، عشرت رحمانی، عباس علی عابد اور رفیع پیر تھےـ یہ اردو کا اثر ہی تھا کہ ‘ہندی’ نشریات میں بھی اُردو استعمال ہونے لگی اور اُردو اور ہندی کے بیچ فرق کرنا مشکل لگتا تھا ـ اَُسی دور میں مولوی عبدالرحمن، خواجہ عبدالمجيد دہلوی، ملا واحدی، بیخود دہلوی، خواجہ غلام السیدین، جے نند کمار، حکیم ذکی احمد، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، ممتاز حسین اور عبدالماجد دریا باری نے ریڈیو پر اُردو کے لیے بہت کام کیا ـ اُس وقت کا شاید ہی ایسا کوئی قلم کار ہو جس نے اُردو کے فروغ کے لیے ریڈیو سے رشتہ نہ جوڑا ہوـ ریڈیو نے ڈرامے کے ذریعے اُردو زبان کو اُس وقت بھی کمال کی انتہا تک پہنچایا، جب تھیٹر زوال پذیر تھا اور یہی ریڈیو ڈرامے عوام میں بے حد مقبول تھےـ اِسی ریڈیو کی وجہ سے لوگ اُردو کے تلفظ، ادائیگی اور لب و لہجہ، خبریں یا دیگر پروگرامز سن کر ٹھیک کرتے تھے کیونکہ اٌس وقت کے براڈ کاسٹرز، میزبان اور نیوز کاسٹرز زبان کی درستگی کا بڑا خیال رکھتے تھے ـ
ریڈیو اور اُردو کے باہمی تعلق کے حوالے سے مشہور لوگوں کے چند خیالات:
( ١)کمال احمد جعفری نے اُردو کے بارے میں کہا:
“ اُردو عوام کی زبان ہے ـ عوام میں رائج ہے ـ اُس لیے میڈیا کی زبان بھی ہے ـ ریڈیو میں اردو براڈ کاسٹ عوام سطح پر مقبول ہے، اُس لیے کہ اُردو بولنے والے اور سننے والے بھی موجود ہیں ـ”
(٢)کبیر داس نے کہا:
“ عوام کی زبان پانی کی طرح ہوتی ہے، مقصد یہ کہ بہتا ہوا پانی پاک صاف ہوتا ہے ـ یہی حال اُردو زبان کا ہےـ یہ عوام کی زبان ہےـ میڈیا کی توسط سے یہ عوام میں زیادہ مقبول ہے ـ کوئی بھی میڈیا ہو، چاہے سینما ہو، ریڈیو ہو یا ٹیلی ویژن ہو، اِن کی مدد سے اُردو مقبول ہے پھر چاہے ان میں فکشن ہو، خبریں ہوں یا ڈاکومنٹری ہوـ اُردو کے گانے اور اُردو کے الفاظ اور تلفظ، اُردو زبان کے کے معیار کو مرتب کرتے ہیں ـ جو لوگ اُردو کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اُن کے لیے بہتر مواقع ہیں ـ در حقیقت اُردو ہی ادب اور ثقافت کا بہترین گلدستہ ہےـ”

تبصرے

Leave a Reply

Back to top button