کالم

پاکستان – افغانستان تعلقات پر نظر

غلام اصغر بھٹو۔
بی ایس; پاکستان اسٹڈیز۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔

پاکستان افغانستان تعلقات پر نظر

ایک مشہور فقرہ ہے کہ "آپ اپنے دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں”۔ دنیا میں جتنے بھی ترقی پسند ممالک ہیں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہی ہوتی ہے کہ ان کا پڑوسی اچھا ہو۔ اس بات کا اندازہ آپ ایک اور فقرے سے بھی اخذ کرسکتے ہیں "کسی ملک کا جغرافیہ جاننا اس کی خارجہ پالیسی کو جاننا ہے۔” یعنی کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کے پڑوسی ممالک کو نظر میں رکھ کر بنائی جاتی ہے کیونکہ ان پڑوسی ممالک کو خارجہ پالیسی کا اہم عنصر سمجھا جاتاہے۔
عام طور پر آپ نے یورپی ممالک کو دیکھا ہوگا کہ اگر یورپ میں کہیں دو ممالک کسی مسئلے پر آمنے سامنے ہو جائیں تو پورا یورپ کود پڑتا ہے کہ کہیں یہ لڑ نہ پڑیں، کیونکہ ان کو اس بات کا پتہ ہے کہ ان کے لڑنے کے اثرات ان پر بھی پڑسکتے ہیں۔

میں جس ریاست کی بات کرنے جا رہا ہوں وہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ایک مسلمان ملک ہے۔ اس ملک کی ایک اپنی تاریخ ہے جو کبھی سرد تو کبھی گرم ہوتی چلی آ رہی ہے، یہ ملک پچھلے کئی سالوں سے حالت جنگ میں رہا اپنے وقت کے سپر پاور ممالک کو نہ صرف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا بلکہ واپسی کا راستہ بھی اچھی طرح دکھا دیا۔ اپنی جدید تاریخ میں اس ریاست نے تین بڑے سپر پاور ممالک کو شکست دی جن میں پہلے برطانیہ پھر سوویت یونین اور آخر میں امریکہ جیسے بڑے مگرمچھ کو رسوا و برباد کیا۔ شاید کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ "افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان ہے” جی میں افغانستان کی ہی بات کر رہا تھا۔ اس ملک کے لوگوں کو اپنی جیو اسٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے غیر ملکی حکومتوں نے طویل عرصے سے اپنے مفادات کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

اس ملک کی پاکستان کے ساتھ سرحدکی لمبائی 2611۔560 کلومیٹرہے جس کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتاہے بدقسمتی سے اس ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات تاریخ میں اتنے اچھے نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، نسلی اور تجارتی روابط ہیں لیکن ان سب کے باوجود بھی اچھے برادرانہ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ان ناخوشگوار تعلقات کے پیچھے کئی ساری وجوہات ہیں۔
جن میں سب سے پہلے بین الاقوامی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنا تھا۔ اس کو مزید آسان کر کے بتائوں تو یہ کہ افغانستان کے عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ سرحد افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان لائن تھی جس کا عرصہ 100 سال تھا۔ دوسری جانب پاکستان نے اصل معاہدے کی بنیاد پر اس سرحد کو مستقل تسلیم کیاجس میں 100 سال کا کوئی ذکر نہیں۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ 12 نومبر1893 میں کیا گیا تھا، جس میں افغانستان کی اہم حکمران عبدالرحمن خان اور برطانوی ہندوستان کے سیکریٹری سر مورٹیمر ڈیورنڈ تھے۔

آگے آئیں تو 3 جون 1947 کے پلان کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ شمال-مغربی سرحدی صوبہ(NWFP) میں ریفرنڈم کروایا جائے گا کہ اس علاقے کے لوگ پاکستان کی ریاست میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ اس صوبے کی کانگریس جماعت نے احتجاج کرتے ہوئے ایک الگ آزاد ملک پختونستان کا مطالبہ کیا۔ یعنی وہ نہ تو بھارت نہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے پر یہ مطالبہ لارڈ مائونٹ بیٹن کی طرف سے رد کردیا گیا۔ اس وقت کے سپر پاور سویت یونین اور افغانستان نے آزاد پختونستان کی حمایت کی یعنی وہ اس کے بننے کے حق میں تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ میں افغانستان کے نمائندے نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی بھی مخالفت کردی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر ریاست دیر کا مسئلہ سامنے آتا ہے، ریاست دیر کے نواب محمد شاہ جہان دیر کو ون یونٹ اسکیم کی علائقائی حدود سے باہر سمجھتے تھے، اس نے اپنے نمائندے پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی نہیں بھیجے تھے۔ 28 ستمبر 1960 میں پاکستان کے وزیرے خارجہ قادر نے افغانستان کی دیر ریاست میں مداخلت کا مظاہرہ کیا جس کے بعد پاکستان نے ریاست دیر کو اپنے اختیار میں لیکر اس کے نواب کو جلاوطن کردیا۔ یعنی پہلی دہائی میں ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے نہیں رہے۔
اگر بات سوویت یونین کے حملہ کی کی جائے تو پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغانستان کی جانی و مالی بھرپور مدد کی، سوویت یونین کے خلاف باقاعدہ مجاہدین کو تربیت دیکر اسلحے کے ساتھ میدان میں اتارا گیا۔ اس اسلحے میں وکیپیڈیا ویب سائٹ کے مطابق چھوٹے ہتھیاروں میں AK-47، AKM، AK 74 رائفلیں، لائٹ مشین گن جبکہ بھاری ہتھیاروں میں ہیوی مشین گن، اینٹی ایئرکرافٹ گن، اینٹی ٹئنک، راکٹ لانچر، میزائل FIM-92 اسٹنگر اور کئے سارے اور خطرناک ہتھیار استعمال کیئے۔ بالآخر سوویت یونین اپنے پاوں جمانے میں ناکام ہوگئی اور واپسی کا راستہ سیدھا دیکھ کر چل پڑا۔

پھر امریکہ کے خلاف باقاعدہ مجاہدین (طالبان) کو تیاری پکڑانے میں بھی پاکستان نے سب سے اول قربانیاں دی۔ پہلے امریکہ کو افغانستان سے طالبان نے نکالا پہر پاکستان نے پاکستان سے، شاید آپ نے کسی پروگرام میں جنرل حمید گل کے یہ الفاظ ضرور سنے ہونگے کہ ” آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے دی اور پھر آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے دی۔” اور اتفاق سے ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ باقی تعلقات وقت آنے پر دیکھیں گے کس کی دوڑ کہاں تک ہے۔
تاریخ میں جنگ نے ہمیشہ ہر طرف تباہی ہی تباہی پھیلائیہے اور یقیناً اس کے اثرات کو ہم کسی نہ کسی شکل میں بھگت رہیں ہے لیکن پھر بھی کسی حد تک اس تباہی کا سامنہ کر کہ ہم نے کچھ پایا اور کچھ سیکھا بھی ہے افغانستان میں اب بھی پاکستان خلاف دشمن دہشتگردی کو فروغ دینا، نفرت پھیلانا پاکستان کے خلاف کام کرنے میں ملوث لوگ موجود ہیں جن میں اکثریت غیر ملکی ایجنسیوں کے لوگوں کی ہیں، جن میں بھارت سب سے زیادہ اہم تھا جوکہ اب اتنا تو نہیں رہا پر پھر بھی کوششیں جاری رکھتا ہوا چلا آرہا ہے۔ بھارت کا افغانستان میں پاکستان کے خلاف کشمکش سرمایہ کاری اور منفی کردار قابل غور تھا جو طالبان کے حکومت میں آنے سے ختم ہوگیا۔ مزید تو بلوچستان میں دہشتگردی کی مالی مدد کرنا اور چین کے منصوبے سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی اپنے انجام تک پہنچنے جا رہی ہیں۔
جبکہ پاکستان پچھلے کئی سالوں سے دھشتگردی کے خلاف جنگ میں الجھا ہوا رہا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان نے بہت جانی و مالی قربانیاں بھی دی ہیں۔

اس وقت نہ تو ہم اپنی تاریخ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی جغرافیہ بدل سکتے ہیں، اس کے برعکس ہم کچھ بہتر کرسکتے ہیں اپنے آنے والے نسلوں کے لیے، اپنے مستقبل کے لیے، اور اس دنیا میں اپنی سالمیت اور بقا کے لیے۔ مستقبل یعنی طالبان کا حکومت میں آنے کے بعد دونوں ممالک کو چاہیئے کہ ایک دوسرے کی ناراضگیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرین۔ سرحد پار دہشتگردی کو ختم کرنا، سرحد پر سیکورٹی انتظامات سخت کرنا، سرحدی باڑ کو مزید مضبوط بنانا، ایک دوسرے کی حمایت کرنا، اقتصادی تجارت کو فروغ دینا اور غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرنا شامل ہونا چاہیے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ "ہم امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اپنے قریبی پڑوسیوں اور پوری دنیا کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں”۔ پاکستان اس وقت افغانستان کے سالمیت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے میں مصروف ہے۔ وہ بات غیر ملکی امداد کی ہو یا بین الاقوامی سطح پر افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہو یا سی پیک کی مدد سے افغانستان کو ترقی کی راہ پر لانا ہو پاکستان ممکنہ پوری کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کی ممکنہ کوششوں میں سے حالیہ اسلامی تنظیم او آئی سی OIC کا اسلام آباد میں خصوصی افغانستان کے مدد کے لیے انعقاد کرنا بھی ہیں۔ 19 دسمبر2021 کو اس خصوصی اجلاس میں افغانستان کی مالی مدد کرنا، خوراک، بین الاقوامی سطح پر ان کی انسانی حقوق اور ہمدردی کو اجاکر کرنا تھا۔
اس اسلامی تنظیم کے 57 رکن ممالک جو سارے مسلمان ریاستیں ہیں جبکہ اس کا بنیاد 1969 میں رکھا گیا تھا۔
اس وقت افغانستان کی اندرونی حالات کو دیکھا جائے تو اس پر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کچھ یوں ہیں کہ; اقوام متحدہ United Nations کے مطابق افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی جو تقریباً 22۔8 ملین لوگوں پر مشتمل ہے وہ بھوک کا سامنا کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چین کا جشن بہار گالا

عوامی حکومت کا عوام کے ساتھ باہمی اعتماد سازی کا رشتہ

میری بابڑی کی پارت ہو
ورلڈ فوڈ پروگرام World Food Program کے تحقیق کے مطابق 3۔2 ملین بچے مالنیوٹڑیشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ڈولپمینٹ پروگرام کے مطابق 97 فیصد افغانستان کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آسکتے ہیں اگر اس بحران کو وقت پر آگاھ یا اجاگر نہ کیا گیا تو اس صورتحال میں افغانستان کی انسانی حقوق کے بنیاد پر بیرونی ریاستیں مدد کریں تاکہ وہ اپنے حالات کو قابو کر سکے۔
ایک آخری بات یہ کہ نہ تو پڑوسی بدلا جا سکتا ہے نہ تو ثقافت، تاریخ بدلی جا سکتی ہیں انسانی حقوق کو اجاکر کرنا اس پر عمل کرنا ہمارا فرض ہیں جوکہ ہمیں بحیثیت پاکستانی افغانستان کے لوگوں کے لیے ان حقوق کی آواز بلند کرنا چاہیے۔ ایک مشہور فقرہ ہیں کے "If you feel pain، you’re alive۔ If you feel other people’s pain، you’re a human being۔”
یعنی "اگر آپ درد محسوس کرتے ہیں، تو آپ زندہ ہیں، اگر آپ دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں، تو آپ ایک انسان ہیں۔”

Leave a Reply

Back to top button