چینکالم

چین عالمی اقتصادی بحالی کا ضامن

شاہد افراز خان ،بیجنگ

National People's Congressچین کے قومی قانون ساز اور سیاسی مشیر اس وقت بیجنگ میں جمع ہیں جہاں "دو اجلاسوں” کے دوران ملک کی اقتصادی سماجی ترقی کو  آگے بڑھانے کے لیے غور وخوض اور ٹھوس لائحہ عمل وضع کیا جا رہا ہے۔دنیا کی نظریں بھی چین کی اس اہم سیاسی سرگرمی پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ امریکہ کے بعد دوسری بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے  چین کی معاشی منصوبہ بندی اور اقتصادی اہداف کے عالمی معیشت پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

معاشی اشاریوں کی بات کی جائے تو چینی وزیر اعظم لی کھہ چھیانگ کی جانب سے قومی عوامی کانگریس کے سامنے  پیش کی جانے والی حکومتی ورک رپورٹ میں سال  2022 کے لیے اقتصادی ترقی کا ہدف تقریباً 5.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے ۔مجموعی قومی  پیداوار  یا جی ڈی پی کا ہدف ان کلیدی اہداف میں سے ایک ہے جن کا نمایاں زکر چینی وزیر اعظم کی جانب سے قومی مقننہ کو پیش کردہ حکومتی ورک رپورٹ میں کیا گیا ہے ، یہی وہ اہم نکتہ بھی ہے جس پر دنیا بھر کے معاشی ماہرین اس وقت بحث کر رہے ہیں۔

حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو چینی معیشت نے 2021 میں 8.1 فیصد نمو کے ساتھ مضبوط بحالی دیکھی ہے  اور 2020 میں بدترین وبائی صورتحال کے دوران بھی  ترقی کی حامل  واحد بڑی معیشت رہی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت بدستور  وبا کی مختلف لہروں اور جغرافیائی سیاسی تناؤ سمیت دیگر غیر یقینی عوامل کی وجہ سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے،وہاں  دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی جانب سے 5.5 فیصد  کا ترقیاتی ہدف یقیناً  عالمی اقتصادی بحالی میں نمایاں شراکت کا ایک واضح اظہار ہے۔

دوسری جانب اس سے قبل، بڑی عالمی تنظیموں نے دیگر عوامل کے علاوہ وبائی لہروں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا حوالہ دیتے ہوئے 2022 کے لیے اپنی عالمی ترقی کی پیش گوئی کو گھٹا دیا تھا۔جنوری کے اواخر میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 2022 میں عالمی معیشت میں 4.4 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی تھی ، جو کہ اکتوبر کی پیش گوئی سے 0.5 فیصد کم ہے، کیونکہ دنیا کی اکثر معیشتیں بدستور سپلائی چین میں رکاوٹ،  افراط زر میں اضافے، ریکارڈ قرضوں اور مسلسل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔عالمی بینک گروپ نے بھی رواں سال جنوری کے وسط میں کووڈ۔19 کے مسلسل پھیلاو، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سپلائی میں رکاوٹوں کے باعث اپنی عالمی شرح نمو کی پیش گوئی کو کم کر کے 4.1 فیصد کر دیا تھا۔

یہاں اس بات کا زکر بھی لازم ہے کہ 2021 میں، بہت سارے خطرات اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود، چینی معیشت کی بحالی اور ترقی کا رجحان برقرار رہا ہے ۔ گزشتہ سال چین کا مجموعی اقتصادی حجم 114.4 ٹریلین یوآن تک پہنچ  چکا ہے۔ امریکی ڈالر میں سالانہ اضافہ 3 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ  چکا ہے، جو کہ عالمی اقتصادی ترقی کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ چین نے انہی  بنیادوں پر اقتصادی ترقی کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز   کا مکمل ادراک کرتے ہوئے  2022 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف تقریباً 5.5 فیصد مقرر کیا ہے، جو کہ ملک کے مجموعی معاشی آپریشن کی حقیقی صورت حال کے عین مطابق ہے اور ” استحکام” کی عکاسی کرتا ہے۔

جی ڈی پی کے ہدف کے ساتھ ساتھ، رپورٹ میں کئی دیگر ترقیاتی اہداف کا اعلان بھی سامنے آیا ہے  جن میں روزگار، سرمایہ کاری، غیر ملکی تجارت اور افراط زر وغیرہ  شامل ہیں۔چین کے نزدیک جی ڈی پی اب ترقی کا واحد پیمانہ نہیں ہے کیونکہ ملک اعلیٰ معیار کی ترقی کی جانب گامزن ہے۔رواں سال، چین کے اہم اہداف میں 11 ملین سے زائد نئی ملازمتیں پیدا کرنا، بے روزگاری کی شرح کو 5.5 فیصد  کی حد کے اندر رکھنا، اناج کی پیداوار کو 650 ملین میٹرک ٹن سے زائد رکھنا اور سی پی آئی کی شرح کو تقریباً 3 فیصد رکھنے جیسے اہداف بھی شامل ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب بڑی عالمی تنظیمیں بڑھتی ہوئی عالمی افراط زر سے پریشان ہیں، چین نے 2022 کے لیے اپنے پورے سال کے افراط زر کا ہدف 3 فیصد کے قریب مقرر کیا ہے، جو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں کے لیے آئی ایم ایف کی 5.9 فیصد کی پیش گوئی سے بہت کم ہے۔

 

علاوہ ازیں چینی حکومت کی ورک رپورٹ میں رواں سال کے لیے چین کی اہم ترجیحات کا خاکہ بھی  پیش کیا گیا ہے، جن میں اہم اقتصادی اشاریوں کو مناسب حد کے اندر رکھنا، اصلاحات کو مستقل طور پر گہرا کرنا، جدت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کا نفاز اور دیہی علاقوں کی حیات کاری کا فروغ نمایاں عناصر ہیں۔ چین رواں سال بیرونی دنیا کے لیے اپنے اعلیٰ  کھلے پن کو مزید بڑھائے گا، مزید بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کاروباری ماحول کو بہتر بنانا جاری رکھے گا۔ ایک وسیع  کھلی چینی منڈی نہ صرف چین میں مزید سرمایہ کاری کو راغب کرے گی بلکہ عالمی کمپنیوں کو چین میں ترقی کے مواقع بھی فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ چین دیگر ممالک کے ساتھ مل کر  "بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون کو مزید گہرا کرنے اور علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری جیسے کثیر جہتی اور دوطرفہ اقتصادی و تجارتی تعاون جیسے اقدامات کی بدولت مشترکہ مفاد اور باہمی سود مند  تعاون کی کوشش کرے گا ۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر، چین کے سالانہ اہداف کے حصول کی کوششیں  یقینی طور پر عالمی معیشت کی بحالی کے لیے مزید مثبت توانائی فراہم کریں گی اور عالمی معیشت کا "استحکام” جاری رکھیں گی۔یہ تمام عوامل اس بات کا مظہر  بھی ہیں کہ چین کی طویل مدتی ترقی کے بنیادی رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، 2022 کے لیے چین کے اہداف معقول اور قابل حصول ہیں جو  عالمی اقتصادی بحالی کو بھی ایک نئی تقویت اور تحریک دیں گے۔

Leave a Reply

Back to top button