تاریخکالم

روسی انقلاب اور اشتراکیت کی ابتدا

غلام اصغر بھٹو.
بی ایس; پاکستان اسٹڈیز.
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد

روس اس وقت رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے یہ ریاست سن 1991 میں ٹوٹنے کے بعد بھی سب سے بڑی رہی. 1991 کے بعد یہ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک جسے انگریزی میں USSR یعنی Union of Soviet Socialist Republic بھی کہا جاتا ہے سوویت سے روس Russia بن گیا. آپ کے علم کے لیے مزید یہ کہ اس کہ ٹوٹنے کی وجہ سے 14 ممالک آزاد ہوکر وجود میں آئے.

Russian Revolution
کہا جاتا ہے کہ
"Poverty is a parent of revolution and crime.”
یعنی غربت انقلاب اور جرم کی ماں ہیں. دنیا کے بڑے انقلابات میں سے فرانسیسی انقلاب جسے French Revolution کہا جاتا ہے کی سب سی بڑی وجہ غربت تھی اس کہ بعد پھر روسی انقلاب Russian Revolution کی وجوہات میں بھی غربت نے اچھا خاصا کردار ادا کیا.

1917 میں روس کا انقلاب اچانک برپا ہو گیا۔ یہ غیر متوقع تو نہیں تھا پر روسیوں نے انقلاب پر طویل عرصے سے بحث کی تھی. 1916 کے اوآخر تک پورے سیاسی اور سماجی میدان میں یہ احساس موجود تھا کہ کسی بھی وقت کسی قسم کی ہلچل ہو سکتی ہے۔ دسمبر 1916 میں اور جنوری 1917 میں اس سے بھی زیادہ واضح طور پر ایسے آثار نظر آ رہے تھے کہ کچھ اہم اور اہم ہونے جا رہا ہے۔ روس 1547 سے زار کے کنٹرول میں ایک مطلق بادشاہت تھا۔ 1905 میں جب جاپان نے روس کو ایک جنگ میں شکست دی، اس کے نتیجے میں روس میں کچھ سیاسی تبدیلیاں آئیں لیکن زار کو اقتدار میں رکھا گیا.

روس میں انقلاب آنے کی کئی ساری وجوہات تھیں جن میں سے کچھ کو میں بیان کرتا ہوں، 1905 میں جاپان کے ساتھ جنگ پھر پہلی جنگ عظیم، 1917 کے زیادہ جانی و مالی نقصان اور معاشی اخراجات، مزدوروں اور کسانوں کی معاشی شکایات، روس کے آخری زار کی ناقص قیادت، اور فوج اس کے بعد درمیانی سیاسی اختلافات اہم وجوہات ہیں.

سن 1905 میں جاپان اور روس کی جنگ ہوئی جس میں جاپان کے ہاتھوں روس کی شکست ایک یقینی تھی جس میں روس کو زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ نے زار کی قیادت میں کمزوریاں ظاہر کیں اور اس کے نتیجے میں عوامی اشتعال پیدا ہوا۔

یہ بھی پڑھیے
پہلی جنگ عظیم کے دوران روس کی جنگی کوششوں نے کھیتوں اور کارخانوں سے تقریبا 15 ملین لوگوں کو لے لیا جس سے مزدوروں کی تعداد میں کمی پیدا ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خوراک کی قلت پیدا ہوئی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس نے شہر پیٹرو گراڈ میں غصے اور بدامنی کو جنم دیا۔ 1916-1917 کے موسم سرما کی وجہ سے خوراک کی قلت مزید بڑھ گئی اور جلد ہی شہروں میں قحط پڑ گیا۔
اقتصادی حالات ایسے بن گئے تھے کہ پہلی جنگ عظیم نے روسی معیشت کو تباہ کر کہ رکھ دیا تھا۔
جنگ لڑنے کے لیے عسکری طور پر روسی جرمن ہم منصبوں کے برعکس، قیادت اور ناقص لیس تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں بار بار ہونے والی شکستوں کی وجہ سے روسی حکومت روسی فوج کی حمایت سے بھی کہیں حد تک محروم ہوگئی.
اقتصادی مسائل اور انقلاب کے اسباب میں روس میں پرانی زرعی معیشت تھی جسے غریب کسان چلاتے تھے۔ روسی معیشت صنعتی ہونے لگی تھی۔ 1863 اور 1900 کے درمیان کارخانوں کی تعداد دوگنی ہو گئی تھی پر یہ فیکٹریاں بنیادی طور پر شہروں میں واقع تھیں۔ مزدوروں کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا تھا اور دارالحکومت سینٹ پیٹرزبرگ میں غیر مطمئن اور غریب کارکنوں کی بڑی تعداد تھی جس کا نام انقلاب کے بعد پیٹرو گراڈ رکھ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا متوسط طبقہ ترقی کرنے لگا تھا۔ کسان، کارخانے کے مزدور، اور متوسط طبقہ سبھی حکومت میں زیادہ بولنا چاہتے تھے۔ لیکن زار نکولس ایک مطلق العنان تھا جس نے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور جب بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ عمل کرنے میں ناکام رہا۔ کثیر نسلی گروہ بھی ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے اگر آپ روس کا نقشہ دیکھیں تو یہ ملک یورپ اور ایشیا میں پھیلا ہوا ہے روس کے اندر بہت سے نسلی گروہوں، زبانوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ خراب سڑکیں، چند ریلوے اور ناقص مواصلات نے روس پر حکومت کرنا مشکل بنا دیا، یعنی آنے جانے والے سڑکیں اچھی خاصی حد تک چلنے کے قابل نہ تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا.
غربت، حکومت کی ناقص کارکردگی, خراب معاشی حالات نے عام لوگوں کا جینا مشکل کر کے رکھ دیا تھا ایسے وقت میں ان لوگوں کو ایک رہنما کی ضرورت تھی جو اس وقت واپس روس آچکا تھا، انقلاب کی اسی جنگ میں والدیمیر لینن، ایک روسی انقلابی جو روس سے فرار ہو گیا تھا، 1917 میں واپس آیا اور حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے فیکٹری ورکرز کو منظم کیا۔ یہ کارکن بالشویکوں کا حصہ تھے جس کا روسی زبان میں مطلب "اکثریت” ہے اور ان کے اقدامات کو بالشویک انقلاب کہا جاتا تھا۔ اگلے تین سالوں میں (1918-1920 ،)خانہ جنگی اور اس کے بعد کے معاشی بحران میں 14 ملین روسی ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زار نکولس اور اس کا خاندان بھی شامل تھا۔ لینن اور بالشویکوں نے اپنے حریفوں کو شکست دی اور کمیونزم پر مبنی دنیا کی پہلی حکومت قائم کی۔

غلام اصغر

غلام اصغر بھٹو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ پاکستان سٹڈیز میں بی ایس کے طالبعلم ہیں۔ ان کے مشاغل میں مختلف جرائد و ڈجیٹل میڈیا میں تحقیقی مقالے لکھنا شامل ہیں۔

ایک تبصرہ

Leave a Reply

Back to top button