کووڈ۔19: دنیا کی دو طاقتوں کا اہم اتفاق رائے
شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس وقت عالمی صورتحال پر نگاہ دوڑائی جائے تو دنیا کئی ہنگامہ خیز تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ ابھی کووڈ۔19 کے بحران سے ہی نجات نہیں مل پا رہی تھی کہ یوکرین تنازعہ نے آ گھیرا، جس نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔موجودہ صورتحال میں دنیا بڑی طاقتوں کے کردار سے آس لگائے بیٹھی ہے جن میں سرفہرست چین اور امریکہ ہیں۔ یہ دونوں ممالک جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں وہاں عالمی و علاقائی امور میں بھی نمایاں اثرو رسوخ کے حامل ہیں۔اگرچہ حالیہ برسوں میں دنیا کی ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان باہمی تعلقات کوئی اتنے خوشگوار نہیں رہے ہیں مگر اہم عالمی مسائل کے حل میں دونوں فریقوں کے درمیان اتفاق رائے کی گلوبل اہمیت ہے۔اسی سلسلے کی ایک حالیہ کڑی چینی اور امریکی صدور کی ورچوئل ملاقات ہے جو یوکرین تنازعہ کے تناظر میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ اور اُن کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان اس ورچوئل بات چیت میں چین۔امریکہ تعلقات اور یوکرین کی صورت حال جیسے مشترکہ تشویش کے مسائل پر کھلا اور گہرا تبادلہ خیال کیا گیا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ 50 سال قبل، امریکہ اور چین نے اہم انتخاب کرتے ہوئے "شنگھائی اعلامیہ” جاری کیا۔ آج 50 سال بعد، امریکہ اور چین کے تعلقات ایک بار پھر نازک موڑ پر ہیں۔ امریکہ ۔چین تعلقات کیسے پروان چڑھتے ہیں یہ 21ویں صدی میں عالمی ڈھانچے کو تشکیل دے گا۔ صدر بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ چین کے ساتھ "نئی سرد جنگ” کا خواہاں نہیں ہے ،اُس کا مقصد چین کے نظام کو تبدیل کرنا نہیں ہے ، اتحاد کی مضبوطی کا ہدف چین مخالف نہیں ہے ،امریکہ "تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرتا اور چین کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ واضح بات چیت، تعاون کی مضبوطی، ایک چین کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے، مسابقت اور اختلافات سے مؤثر طور پر نمٹنے اور امریکہ چین تعلقات کی مستحکم ترقی کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔بائیڈن نے یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے صدر شی جن پھنگ کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر آمادہ ہیں۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ گزشتہ نومبر میں دونوں صدور کے درمیان ہونے والی "کلاؤڈ میٹنگ” کے بعد سے بین الاقوامی صورتحال میں نئی اور بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ امن اور ترقی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے اور دنیا پرامن نہیں ہے۔مسئلہ یوکرین ایک ایسا بحران ہے جسے کوئی بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ واقعات ایک مرتبہ پھر ظاہر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کو تصادم کے مرحلے تک نہیں پہنچنا چاہیے، تصادم کسی کے مفاد میں نہیں اور امن و سلامتی عالمی برادری کا سب سے قیمتی خزانہ ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے طور پر، دونوں ممالک کو نہ صرف چین اور امریکہ کے تعلقات کو درست سمت پر گامزن کرنا چاہیے، بلکہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا چاہیے اور عالمی امن و سکون کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔ شی جن پھنگ نے کہا کہ چین نے ہمیشہ امن کی وکالت اور جنگ کی مخالفت کی ہے جو کہ چین کی ایک تاریخی اور ثقافتی روایت ہے۔ چین نے ہمیشہ حقائق کی روشنی اور صحیح اور غلط کے مطابق آزادانہ فیصلے کیے ہیں، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنے کی وکالت کی ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کی ہے، اور ایک مشترکہ، جامع، پائیدار سلامتی اور تعاون پر مبنی تصور کی حمایت کی ہے. یہ وہ جامع اصول ہیں جو یوکرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے چین کا بنیادی موقف بھی ہیں۔ چین نے یوکرین میں انسانی صورتحال پر چھ نکاتی انیشیٹو پیش کیا ہے اور یوکرین اور دیگر متاثرہ ممالک کو مزید انسان دوست امداد فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔ تمام فریقین کو مشترکہ طور پر روس۔یوکرین مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے، امریکہ اور نیٹو کو بھی یوکرین کے بحران کو حل کرنے اور روس اور یوکرین دونوں کے سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے روس کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
شی جن پھنگ نے اس جانب اشارہ کیا کہ چین امریکہ تعلقات سابق امریکی انتظامیہ کی پیدا کردہ مشکلات سے بدستور نہیں نکل سکے ہیں ، بلکہ اس کے بجائے مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں کچھ لوگ "تائیوان کی علیحدگی پسند” قوت کو غلط اشارے بھیج رہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگر تائیوان کے معاملے کو صحیح طور پر نہ نمٹا گیا تو اس سے دونوں ممالک کے تعلقات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے واضح کر دیا کہ چین اور امریکہ کے درمیان ماضی میں بھی اور آج بھی اختلافات موجود ہیں اور مستقبل میں بھی اختلافات رہیں گے۔ کلید یہی ہے کہ اختلافات سے بہتر طور پر نمٹا جائے ۔ مستحکم چین امریکہ تعلقات دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔
شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک پہلے ہی بہت ساری مشکلات سے دوچار ہیں۔ بڑے ممالک کے رہنماوں کے طور پر، ہمیں عالمی ہاٹ اسپاٹ مسائل کو مناسب طریقے سے حل کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور اس سے بھی اہم بات عالمی استحکام اور اربوں لوگوں کی زندگیوں کا خیال رکھنا ہے۔ وسیع اور بلاامتیاز پابندیوں کے نفاذ سے عام لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر ایسے اقدامات کو مزید آگے بڑھایا جاتا ہے تو یہ عالمی معیشت، تجارت، مالیات، توانائی، خوراک، صنعتی چین اور سپلائی چین میں بھی سنگین بحرانوں کو جنم دے گا، جس سے پہلے سے پیچیدہ عالمی معیشت مزید بدتر ہو جائے گی اور ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ صورتحال جس قدر پیچیدہ ہوگی، اُسی قدر تحمل اور معقول اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر حال میں سیاسی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، امن کے لیے امکان تلاش کرنا چاہیے اور سیاسی تصفیے کی گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔
شی جن پھنگ نے ورچوئل بات چیت کے دوران یہ پیغام بھی دیا کہ فریقین سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں اور مناسب حل تلاش کریں، اور دیگر فریقوں کو بھی اس حوالے سے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ اس وقت اولین ترجیح بات چیت اور گفت و شنید کو جاری رکھنا، شہری ہلاکتوں سے بچنا، انسانی بحرانوں کو روکنا اور جنگ کا جلد از جلد خاتمہ ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان باہمی احترام، سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا، گروہوں کے تصادم میں شامل نہ ہونا اور بتدریج ایک متوازن، موثر اور پائیدار عالمی اور علاقائی سلامتی کا خاکہ قائم کرنا ، طویل المدتی حل ہے۔ چین امن کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہا ہے اور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
دونوں سربراہان مملکت نے ورچوئل ملاقات کو تعمیری قرار دیا اور دونوں ممالک کی ورکنگ ٹیموں کو ہدایت کی گئی کہ وہ بروقت فالو اپ کریں، عملی اقدامات کریں، چین امریکہ تعلقات کو مستحکم ترقی کی راہ پر واپس لانے کے لیے کوشش کریں، اور یوکرین کے بحران کو مناسب طریقے سے حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں کریں۔