چینکالم

امن و سلامتی کا چینی وژن

شاہد افراز خان ،بیجنگ

امن و سلامتیامن اور ترقی، عہد حاضر کا اہم ترین موضوع ہے جسے آج شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ایک جانب یوکرین کا بحران طول پکڑ رہا ہے اور بڑے ممالک کے درمیان دراڑیں بڑھ رہی ہیں جس سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب کووڈ۔19 کے باعث دنیا میں معاشی بحالی میں غیر یقینی کی وجہ سے ترقی کا عمل بھی بدستور گراوٹ کا شکار ہے۔عالمی امن کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ایک بڑے عالمی قائد کے طور پر چینی صدر شی جن پھنگ نے مستقل طور پر اشتراکی، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی وژن کی وکالت کی ہے، جس سے انسانی معاشرے کو پائیدار امن اور عالمگیر سلامتی کی جانب بڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔

یوکرین بحران کی ہی بات کی جائے تو  چینی صدر نے پچیس فروری کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بات چیت میں سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنے، مختلف ممالک کے جائز سیکورٹی خدشات کو اہمیت دینے اور ان کا احترام کرنے اور مذاکرات کے ذریعے ایک متوازن، موثر اور پائیدار یورپی سیکورٹی میکانزم کی تشکیل پر زور دیا۔ اٹھارہ مارچ کو امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک ورچوئل ملاقات کے دوران، چینی صدر نے زور دیا کہ "بڑے ممالک کے رہنماوں کے طور پر، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عالمی ہاٹ اسپاٹ مسائل کو کیسے حل کیا جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی استحکام اور دنیا کے اربوں لوگوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھا جائے”۔انہوں نے مزید کہا کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں، امن اور سیاسی تصفیہ کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے جسے آگے بڑھانے کے لیے سیاسی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ چین کی امن کی دعوت  اور مذاکرات کو فروغ دینے کے معقول اور منصفانہ موقف کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ چینی وژن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلامتی یا سیکیورٹی کو دنیا کے صرف ایک یا چند ممالک تک محدود نہیں کیا جا سکتا ہے جب کہ باقی دنیا یا ممالک کو غیر محفوظ چھوڑ دیا جائے،  ہر ملک یا خطے کو علاقائی سلامتی کے امور میں حصہ لینے کا مساوی حق اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی یکساں ذمہ داری حاصل ہے۔عالمی مبصرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ  شی جن پھنگ کا  پیش کردہ وژن بین الاقوامی تعلقات میں وسیع پیمانے پر "سیکیورٹی مخمصہ” کو حل کرنے کا ایک نیا طریقہ فراہم کرتا ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے بین الاقوامی سلامتی کے شعبے میں دنیا کے لیے ایک "چینی حل” پیش کیا ہے۔

ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر، چین پرامن ترقی اور سودمند تعاون کے راستے پر گامزن ہے ۔چین عالمی امن کا معمار، عالمی ترقی میں معاون اور بین الاقوامی نظام کا محافظ ہے۔چین نے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے ہمیشہ ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ عالمی اسٹریٹجک استحکام کے تحفظ، بین الاقوامی سطح پر ہتھیاروں کے کنٹرول، تخفیف اسلحہ اور عدم پھیلاؤ میں فعال طور پر شمولیت سے لے کر عالمی امن سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت تک، چین نے عملی اقدامات سے عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوط تحریک دی ہے۔

یوکرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے بھی چین نے دونوں فریقوں کی مذاکرات کی رفتار برقرار رکھنے، مشکلات پر قابو پانے، اور پرامن نتائج کے حصول کے لیے فعال طور پر حوصلہ افزائی کی ہے۔ چین نےبات چیت اور مشاورت کے ذریعے جزیرہ نما کوریا کے جوہری مسئلے کے سیاسی حل کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کیا ہے۔اسی طرح ایران کے جوہری مذاکرات جو اس وقت ایک نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں، اس حوالے سے بھی چین  تمام فریقوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دے رہا ہے۔علاوہ ازیں صحت، ماحولیات، ڈیجیٹلائزیشن جیسے غیر روایتی سیکیورٹی شعبوں میں بھی چین کے تعاون کو بین الاقوامی برادری نے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔

تاحال، چین نے 120 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو 2.1 بلین سے زائد کووِڈ۔19 ویکسینز فراہم کی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، اپنے کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل اہداف کو آگے بڑھایا ہے اور متعلقہ ایکشن پلان ترتیب دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  چین نے انسداد دہشت گردی کے عالمی تعاون کو بھی فعال طور پر آگے بڑھایا ہے، جس میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور "دوہرے معیارات” کو ترک کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

مشترکہ ترقی کے حصول کے لیے چین نے نہ صرف مسلسل کوششوں کے ذریعے غربت کا خاتمہ کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں دیگر ممالک کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے۔ چین باہمی مفاد اور سودمند نتائج کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت اعلیٰ معیار کے تعاون کو آگے بڑھا رہا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک کو درپیش اہم ترین مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کو  فروغ دے رہا ہے جس سے تخفیف غربت، تحفظ خوراک، اقتصادی بحالی، روزگار کی فراہمی ، پائیدار صحت اور سبز ترقی کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں نمایاں مدد مل رہی ہے .

شاہد افراز

شاہد افراز خان پیشے کے اعتبار سے براڈکاسٹر ہیں۔سن 2007 میں بطور پروگرام پروڈیوسر ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے نشریاتی سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت چائنا میڈیا گروپ بیجنگ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Back to top button