چین: نئی ماحول دوست ٹرانسپورٹ
شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں چائنا پیسنجر کار ایسوسی ایشن نے بتایا کہ ملک میں نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت رواں سال کی پہلی سہ ماہی تک دوگنی ہو جائے گی، جبکہ چین کا عالمی منڈی میں اس حوالے سے شیئر 65 فیصد ہو جائے گا۔ نئی توانائی سے چلنے والی مسافر گاڑیوں کی ملکی مارکیٹ نے وبائی صورتحال، چپس کی کمی اور لیتھیم کی قیمت میں اضافے کے منفی اثرات کے باوجود مسلسل تیز رفتار ترقی کو برقرار رکھا ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ ہے، جہاں ہر سال تقریباً 30 ملین گاڑیاں تیار اور فروخت ہوتی ہیں، لیکن ان میں سے تقریباً 90 فیصد فوسل فیول گاڑیاں ہیں جن پر غیر ملکی برانڈز کا غلبہ ہے۔ تقریباً تمام معروف غیر ملکی برانڈز اور اعلیٰ مینوفیکچررز کے چین میں جوائنٹ وینچرز یا منصوبے جاری ہیں۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے چین کی کوشش ہے کہ اب ملک میں شفاف توانائی کو فروغ دیتے ہوئے تمام غیر ملکی برانڈز کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی جانب آئیں اور چین کی بڑی منڈی سے فائدہ اٹھائیں۔ حقائق کی روشنی میں یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ تقریباً 10 سالوں میں، فوسل فیول والی گاڑیاں اپنے مارکیٹ شیئر کا نصف نئی توانائی کی گاڑیوں کے لیے چھوڑ دیں گی اور 2040 تک مین اسٹریم مینوفیکچررز فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیاں مزید فروخت نہیں کریں گے۔ لہذا نئی توانائی کی گاڑیاں ، خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی ترقی چین کی آٹوموبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ترقی کے لیے نئے مواقع لے کر آئی ہے۔
چین نے اس ضمن میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک بے پناہ کوششیں کی ہیں اور انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین اس وقت نئی توانائی کی گاڑیوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔حیرت انگیز طور پر 2020 میں، دنیا بھر میں 10 ملین سے زائد نئی توانائی کی گاڑیاں گردش میں تھیں اور ان میں سے تقریباً نصف چین میں موجود تھیں۔اسی طرح گزشتہ سال 2021 میں بھی ، وبا کے اثرات اور چپ کی کمی کے باوجود چین کی نئی توانائی کی گاڑیوں کی منڈی نے مثبت نمو برقرار رکھی اور سالانہ فروخت 3.52 ملین یونٹس تک پہنچ چکی ہے، جس میں سالانہ بنیادوں پر 1.6 گنا اضافہ ہوا ہے۔چینی حکام پر امید ہیں کہ ملک کی نئی توانائی کی گاڑیوں کی منڈی 2025 تک مجموعی مارکیٹ شیئر کے 25 فیصد سے زائد تک پہنچ جائے گی اور تیز رفتار ترقی کے نئے دور میں داخل ہوگی۔
اس تناظر میں مزید ٹھوس اقدامات کی بات کی جائے تو بی وائے ڈی کا شمار چین کے ایک سرکردہ آٹو مینوفیکچرر میں ہوتا ہے جس نے ابھی تین اپریل کو اعلان کیا کہ کمپنی نے مارچ سے پٹرول سے چلنے والی روایتی گاڑیوں کی تمام پیداوار بند کر دی ہے۔ بی وائے ڈی نے مارچ میں 104,300 سے زائد یونٹس کی فروخت کے ساتھ، ملک میں نئی توانائی سے چلنے والی کاروں کی ماہانہ فروخت کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ اس شعبے میں ملک کے پانچ سرفہرست اسٹارٹ اپس میں سے ہر ایک نے 10,000 یونٹس کی ماہانہ فروخت ریکارڈ کی ہے، جو ان کی شرح نمو کو سال بہ سال دوگنا کرنے سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اردو کی بورڈ
لینڈ لائن نمبر پر واٹس ایپ بنانے کا طریقہ
ایک پارس تھی کملا بھاسن
یوں چین میں نئی توانائی کی گاڑیوں کی صنعت، اپنی بہترین کارکردگی، مسابقتی گاڑیوں اور بہتر صارف دوست ماحول کے ساتھ، ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جو بنیادی طور پر مارکیٹ کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔چین کی وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق اس نئے مرحلے میں داخل ہونے کے بعد، اب اس صنعت میں مزید کامیابیاں حاصل کرنا ہر گز کوئی آسان ہدف نہیں ہے ، اور نئے حالات اور مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں چین کو صنعت کے معاون پالیسی نظام کو بہتر بنانا چاہیے، مربوط جدت طرازی کو گہرا کرنا چاہیے، آٹوموبائل چپس کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے، اور مختلف افعال، ڈیٹا اور سائبر اسپیس کے تحفظ کے حوالے سے نگرانی کی سطح کو مضبوط بنانا چاہیے۔
دوسری جانب دنیا کے متعدد ممالک بشمول آسٹریا، ڈنمارک، فن لینڈ، سویڈن، نیدرلینڈز اور ناروے وغیرہ یہ عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ اُن کے ہاں 2040 تک یا اس سے قبل تمام گاڑیاں صفر کاربن اخراج کی حامل ہوں گی ۔دنیا کے معروف گاڑی ساز ادارے، جیسے مرسڈیز بینز، ووکس ویگن، بی ایم ڈبلیو اور فورڈ، پہلے ہی فوسل فیول گاڑیوں کی پیداوار کو ختم کرنے کے لیے ٹائم فریم تجویز کر چکے ہیں۔ کاربن نیو ٹرل کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مارکیٹ سے فوسل فیول گاڑیوں کا مرحلہ وار اخراج تاریخ کا ایک ناگزیر رجحان ہے۔ اس وقت ویسے بھی ” لو کاربن ترقی” ایک عالمی رجحان بن چکا ہے اور موجودہ ماحول دوست کوششوں کے تناظر میں اسے ایک ناگزیر عمل قرار دیا جا سکتا ہے ، ایک بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے کہ ماحول دوست اور کم کاربن کی حامل ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔یوں دنیا کی مشترکہ کوششوں سے تخفیف کاربن کی بدولت ماحول دوست رویے پروان چڑھ رہے ہیں جن میں چین جیسے بڑے ملک کا عملی کردار قابل ستائش ہے۔