چینکالم

مستقبل کا ایندھن

شاہد افراز خان ،بیجنگ

مستقبل کا ایندھنہائیڈروجن کے حوالے سے کئی دہائیوں سے یہ بات کی جا رہی ہے یہ مستقبل کا ایندھن ہے، لیکن اب بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہائیڈروجن توانائی کے عروج کا صحیح وقت آ چکا ہے۔ تیل اور گیس پیدا کرنے والے بڑے ممالک کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور وہ بھی ہائیڈروجن ایندھن کی جانب بڑھنے کے خواہشمند ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا روایتی رکازی ایندھن یا فوسل فیول پر انحصار کم کرتی نظر آرہی ہے۔دوسری جانب اکثر خطوں میں ہوا اور شمسی توانائی کی وافر سپلائی بھی زیادہ کفایتی انداز میں گرین ہائیڈروجن کی پیداوار کو ترقی دینے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔

یہاں یہ حقیقت بھی مد نظر رکھی جائے کہ  ٹرانسپورٹ یا ذرائع نقل و حمل گیسولین اور ڈیزل کے دہن سے عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا  24 فیصد اخراج کرتے ہیں، جس میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں جیسے کاریں، ٹرک، بسیں اور موٹر سائیکلیں عالمی ٹرانسپورٹ کے اخراج کا تقریباً تین چوتھائی بنتی ہیں۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ بیٹری الیکٹرک وہیکلز اور فیول سیل الیکٹرک وہیکلز عالمی ٹرانسپورٹ کو ڈیکاربونائز کرنے کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل متبادل ہیں۔ ہائیڈروجن توانائی کا ایک ثانوی ذریعہ ہے جسے عام طور پر صنعتی پیمانے پر پیدا کرنے کے لیے بنیادی توانائی کے ان پٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔عالمی سطح پر، ہائیڈروجن بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک انتخاب بن چکا ہے جو اپنی توانائی کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ کو تیز کرنا چاہتے ہیں۔

انہی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے چین میں ہائیڈروجن ایندھن کو فروغ دینے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور حکومت نے یہ ہدف طے کیا ہے کہ 2025 تک ملک میں ہائیڈروجن ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کو  پچاس ہزار تک بڑھایا جائے گا جس سے  ہر سال ایک لاکھ سے دو لاکھ  ٹن سبز ہائیڈروجن پیدا ہو گی۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈروجن پیدا کرنے والا ملک ہے، جس کی سالانہ پیداوار تقریباً 33 ملین ٹن ہے۔

چین کی کوشش ہے کہ 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے  سبز ہائیڈروجن کی پیداوار کو بھرپور فروغ دیا جائے، جو قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے پیدا ہونے والا زیرو کاربن ایندھن ہے۔منصوبے کے مطابق چین 2025 تک نسبتاً ایک جامع ہائیڈروجن توانائی کی صنعت کی ترقی کا نظام قائم کرے گا، جس میں جدت طرازی کی صلاحیت میں نمایاں بہتری آئے گی ہے اور بنیادی ٹیکنالوجیز اور مینوفیکچرنگ کے عمل میں مہارت حاصل کی جائے گی۔ چین کا مقصد  ہے کہ صاف توانائی سے تیار کردہ ہائیڈروجن کی پیداوار، ذخیرہ کرنے اور نقل و حمل، مارکیٹ کی مسابقت کو بہتر بنانے، اور بنیادی طور پر صنعتی بائی پروڈکٹ ہائیڈروجن اور گرین ہائیڈروجن پر مبنی سپلائی سسٹم تشکیل دیا جائے۔یوں چین  2030 تک، ایک معقول اور منظم صنعتی ترتیب اور قابل تجدید توانائی سے ہائیڈروجن کی پیداوار کے وسیع استعمال کی تلاش کر رہا ہے تاکہ کاربن پیک  کے ہدف کے لیے ٹھوس تعاون کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔انہی کوششوں کی بنیاد پر 2035 تک، ٹرمینل توانائی کی کھپت میں قابل تجدید توانائی سے پیدا ہونے والی ہائیڈروجن کا تناسب نمایاں طور پر بڑھ جائے گا، جو کہ ملک کی سبز توانائی کی تبدیلی میں اہم معاون کردار ادا کرے گا۔

اس ضمن میں بینکوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گرین ہائیڈروجن انڈسٹری کو کامل اور متنوع مالیاتی خدمات فراہم کریں تاکہ اس ماحول دوست صنعت کو ترقی دی جا سکے۔متعلقہ چینی محکموں نے ہائیڈروجن صنعت میں بے ترتیب مسابقت کے بارے میں بھی خبردار کرتے ہوئے وسائل اور مارکیٹ کی طلب پر مبنی ہائیڈروجن پروجیکٹس کی معقول ترتیب پر زور دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین: نئی ماحول دوست ٹرانسپورٹ

امن و سلامتی کا چینی وژن

چین کی انسداد وبا کے لیےاسمارٹ کوششیں

چین: مضبوط اور موئثر گورننس کے ثمرات

انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے چین نے 250 سے زائد ہائیڈروجن ری فیولنگ سٹیشنوں کی تعمیر  بھی مکمل کر لی ہے، جو کہ عالمی سطح پر مجموعی تعداد کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔ یہ پیش رفت چین کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہائیڈروجن توانائی تیار کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوششوں کا عملی اظہار ہے۔ چین قابل تجدید توانائی سے ہائیڈروجن پیدا کرنے کی خاطر  پانی کے الیکٹرولائسز کی لاگت کو کم کرنے کے منصوبے بھی تیار کر رہا ہے۔ یوں چین دیگر دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرتے ہوئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اہداف کی روشنی میں ہائیڈروجن توانائی کی ترقی کو آگے بڑھا رہا ہے جو چین کی ماحول دوستی کا ایک اور ثبوت ہے ۔

Leave a Reply

Back to top button