شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین نے حالیہ برسوں میں خود کو عالمی جدت طرازی میں ایک اہم رہنماء کے طور پر آگے لایا ہے اور دنیا بھی انوویشن اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے سراہتی ہے۔حقائق پر نگاہ ڈالی جائے تو دس سال پہلے، ایشیا کا عالمی دانشورانہ املاک فائلنگ میں تناسب 50 فیصد تھا۔حیرت انگیز طور پر 2021 میں یہ تعداد 70 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس میں چین کی جانب سے سامنے آنے والی اختراع کی شراکت سب سے نمایاں ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اس عمل میں سب سے بڑا شراکت دار ہے۔
گلوبل انوویشن انڈیکس(جی آئی آئی) 2021 ،جو کہ عالمی تنظیم برائے املاکی حقوق کی ایک فلیگ شپ رپورٹ ہے،کے مطابق چین اس انڈیکس میں 12ویں نمبر پر آ چکا ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے میں چین کی درجہ بندی دو درجے مزید بہتر ہوئی ہے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ چین گلوبل انوویشن انڈیکس کی ٹاپ 15 معیشتوں میں متوسط آمدنی والا واحد ملک ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی تنظیم کا خیال ہے کہ چین جی آئی آئی "ٹاپ 10 "کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔چینی انوویشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2020 میں، گلوبل پیٹنٹ، ٹریڈ مارک اور صنعتی ڈیزائن فائلنگ میں چینی ایپلی کیشنز کا تناسب بالترتیب 45.7 فیصد، 54 فیصد اور 55 فیصد رہا ہے ، جو واضح کرتا ہے کہ کیوں چین کو اختراعی میدان میں باقی دنیا پر سبقت حاصل ہے۔
چین 2021 میں عالمی تنظیم برائے املاکی حقوق کے زیر انتظام پیٹنٹ کوآپریشن ٹریٹی (پی سی ٹی) ، میڈرڈ سسٹم اور ہیگ سسٹم میں بالترتیب پہلے، تیسرے اور 10ویں نمبر پر رہا ہے۔ اسی سال، چین نے مجموعی طور پر 69,540 پی سی ٹی ایپلی کیشنز فائل کیں، جس میں سالانہ 0.9 فیصد کا اضافہ ہے۔ چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے 6,952 پی سی ٹی ایپلی کیشنز کے ساتھ 2021 میں سب سے بڑی فائلر تھی، جبکہ یہ امر قابل زکر ہے کہ ہواوے مسلسل پانچ سالوں سے اس فہرست میں ٹاپ پر موجود ہے۔ ٹاپ 10 فائلرز کی فہرست میں دیگر دو چینی کمپنیاں گوانگ دونگ اوپو موبائل ٹیلی کمیونیکیشن اور بی او ای ٹیکنالوجی شامل تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
چین کا افغانستان کی پر امن تعمیر نو میں عملی کردار
تکنیکی میدان میں چین کے پاس دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے 19 سرفہرست کلسٹر موجود ہیں، جن میں شینزین، ہانگ کانگ کا خصوصی انتظامی علاقہ اور گوانگ جو دوسرے نمبر پر ہیں، اس کے بعد بیجنگ (تیسرے)، شنگھائی (08ویں)، نان جنگ (18ویں) اور ہانگ جو (21ویں) نمبر پر موجود ہے اور گرزتے وقت کے ساتھ ان کی درجہ بندی میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ اسی طرح سرفہرست 50 تعلیمی اداروں کی درجہ بندی میں، چین نے فہرست میں سب سے زیادہ یونیورسٹیوں کا اعزاز حاصل کیا، چینی یونیورسٹیوں نے 19 نشستیں حاصل کی ہیں۔ فہرست میں موجود ٹاپ 10 جامعات میں سے چار کا تعلق چین سے ہے۔ زے جیانگ یونیورسٹی (دوسرے)، سنگھوا یونیورسٹی (چوتھے)، ساؤتھ چائنا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (ساتویں) اور سوچو یونیورسٹی (نویں) نمبر پر موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں تعلیم اور تحقیق کو کس احسن انداز سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
چین نے صرف چند دہائیوں میں ایک انتہائی موثر اور جدید انوویشن سسٹم تشکیل دیا ہے جس نے چین کی سماجی و اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں بھرپور معاونت فراہم کی ہے۔ جدت طرازی اور دانشورانہ املاک کے میدان میں چین کی نمایاں کامیابیوں کا سہرا چین کی مضبوط پالیسی سازی اور منصوبہ بندی، عمل درآمد اور آزمائش، اصلاحات اور کھلے پن کو گہرا کرنے کے عزم اور مضبوط اختراعی ماحولیاتی نظام کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ آج زیادہ سے زیادہ چینی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی تکنیکی برتری کی بنیاد پر عالمی سطح پر مقابلہ کر رہی ہیں اور دنیا کے ساتھ بھرپور تعاون کی بدولت اپنی کامیابیوں کا اشتراک جاری رکھے ہوئے ہیں۔