چینکالم

تحفظ ماحول کے لیے چین کے غیر معمولی اقدامات

شاہد افراز خان ،بیجنگ
تحفظ ماحولپانچ جون دنیا بھر میں تحفظ ماحول کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم ماحولیات اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی قیادت میں 1973 سے ہر سال اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ معاشرے میں تحفظ ماحول سے متعلق شعور و آگاہی کو فروغ دیا جائے اور دنیا بھر کے ممالک کو اُن کی ذمہ داریوں سے متعلق جھنجوڑا جائے۔عالمی یوم ماحولیات 2022 کی میزبانی سویڈن کر رہا ہے۔رواں سال تحفظ ماحول کی مہم کا نعرہ "صرف ایک زمین” ہے، جس کا مقصد "فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے پائیدار زندگی گزارنا” ہے۔
تحفظ ماحول اور عالمی ذمہ داریوں کی بات کی جائے تو دنیا کے بڑے ممالک کا کردار انتہائی اہم ہے۔اس تناظر میں چین میں ہر سطح پر ماحولیاتی تہذیب کی تعلیم کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے، چینی سماج نے اپنی زندگی میں معمولی باتوں سے شروعات کرتے ہوئے، توانائی کے تحفظ اور ماحولیات کے تحفظ کی اچھی عادات کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا ہے ، اور سبز اور کم کاربن والی زندگی بسر کرنا سیکھ رہے۔چین کے نزدیک عوام اور ادارے ماحولیاتی تہذیب کی وہ مضبوط بنیاد ہیں جس پر گرین ترقی کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔حالیہ برسوں کے دوران اپنے ملک کو خوبصورت بنانے کے لیے چینی عوام کی مسلسل کوششوں کی بدولت جنگلات کا رقبہ وسیع ہوا ہے، ملک بھر کے رہائشی ماحول میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور معیشت کو زیادہ پائیدار راستے پر گامزن رکھا گیا ہے۔ شجرکاری کی کوششوں کی بدولت چین میں گزشتہ دہائی کے دوران 64 ملین ہیکٹر رقبے پر درخت لگائے گئے ہیں۔ ملک میں جنگلات کا رقبہ مجموعی رقبے کے 23.04 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو 2012 کے مقابلے میں 2.68 فیصد زیادہ ہے۔
چین کی جنگلات کے تحفظ کی کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے۔ 2017 میں، چین کے سائی ہان با جنگلات نے چیمپیئنز آف دی ارتھ ایوارڈ جیتا، جو اقوام متحدہ کا اعلیٰ ترین ماحولیاتی اعزاز ہے۔ ابھی حال ہی میں چائنا فارسٹری گروپ نے بتایا کہ وہ 2022 میں ملک میں 40 ہزار ہیکٹر رقبے پر درخت لگانے کی کوشش کرے گا۔اس دوران بڑے پیمانے پر جنگلات کو فروغ دیا جائے گا اور مقامی حالات کے مطابق شجرکاری کی سرگرمیاں انجام دی جائیں گی۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین نے 2021 میں 3.6 ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات لگائے اور تقریباً چار لاکھ ہیکٹر اراضی کو جنگلات میں تبدیل کیا ہے ۔اس دوران چین کی جانب سے جنگلات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہدافی اقدامات کیے گئے اور حیرت انگیز طور پر گزشتہ سال تقریباً ساڑھے نو لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلے تباہ شدہ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال ملک میں ہوا کے اچھے معیار کے حامل دنوں کا تناسب بڑھ کر 87.5 فیصد ہو چکا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں 0.5 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔ ملک کی توانائی کی فی یونٹ جی ڈی پی کی کھپت میں 2011 سے 2020 تک 28.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2010 تا 2020 کی مدت کے دوران ملک میں توانائی کی کھپت کے مجموعی مرکب میں کوئلے کا تناسب 69.2 فیصد سے کم ہو کر 56.8 فیصد رہ گیا ہے۔دوسری جانب ملک میں نئی توانائی سے پیدا ہونےوالی بجلی کی پیداواری صلاحیت تقریباً 70 کروڑ کلوواٹ تک پہنچ چکی ہے۔یہ بات بھی غیر معمولی ہے کہ ملک میں ہوا اور شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی چین کی کل بجلی کی پیداوار کا 11.7 فیصد ہے ، چین اس لحاظ سے دنیا میں مسلسل پہلے نمبر پر ہے۔ چین میں ہائیڈروجن ایندھن کو فروغ دینے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور حکومت نے یہ ہدف طے کیا ہے کہ 2025 تک ملک میں ہائیڈروجن ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کو پچاس ہزار تک بڑھایا جائے گا جس سے ہر سال ایک لاکھ سے دو لاکھ ٹن سبز ہائیڈروجن پیدا ہو گی۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈروجن پیدا کرنے والا ملک ہے، جس کی سالانہ پیداوار تقریباً 33 ملین ٹن ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے سبز ہائیڈروجن کی پیداوار کو بھرپور فروغ دیا جائے، جو قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے پیدا ہونے والا زیرو کاربن ایندھن ہے۔منصوبے کے مطابق چین 2025 تک نسبتاً ایک جامع ہائیڈروجن توانائی کی صنعت کی ترقی کا نظام قائم کرے گا، جس میں جدت طرازی کی صلاحیت میں نمایاں بہتری آئے گی ہے اور بنیادی ٹیکنالوجیز اور مینوفیکچرنگ کے عمل میں مہارت حاصل کی جائے گی۔ چین کا مقصد ہے کہ صاف توانائی سے تیار کردہ ہائیڈروجن کی پیداوار، ذخیرہ کرنے اور نقل و حمل، مارکیٹ کی مسابقت کو بہتر بنانے، اور بنیادی طور پر صنعتی بائی پروڈکٹ ہائیڈروجن اور گرین ہائیڈروجن پر مبنی سپلائی سسٹم تشکیل دیا جائے۔یوں چین 2030 تک، ایک معقول اور منظم صنعتی ترتیب اور قابل تجدید توانائی سے ہائیڈروجن کی پیداوار کے وسیع استعمال کی تلاش کر رہا ہے تاکہ کاربن پیک کے ہدف کے لیے ٹھوس تعاون کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ اس وقت ویسے بھی ” کم کاربن ترقی” ایک عالمی رجحان بن چکا ہے اور موجودہ ماحول دوست کوششوں کے تناظر میں اسے ایک ناگزیر عمل قرار دیا جا سکتا ہے ، ایک بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے کہ ماحول دوست اور کم کاربن کی حامل ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔یوں دنیا کی مشترکہ کوششوں سے تخفیف کاربن کی بدولت ماحول دوست رویے پروان چڑھ رہے ہیں جن میں چین جیسے بڑے ملک کا عملی کردار قابل ستائش ہے۔

Leave a Reply

Back to top button