شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ عرصے میں چینی صدر شی جن پھنگ نے مختلف اہم عالمی پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تواتر سے دنیا کو درپیش متعدد عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی راہ دکھلائی ہے ۔ایک بڑے ملک اور ایک ذمہ دار عالمی طاقت کے رہنماء کی حیثیت سے اُن کے خطابات میں ہمیشہ دنیا کی بھلائی اور عوام کی فلاح و بہبود کی تشویش جھلکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بالخصوص ترقی پزیر ممالک جہاں اپنی ملکی ترقی میں چین کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں وہاں چینی صدر کے عالمی وژن کی تحسین بھی کی جاتی ہے۔
اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے 25ویں سینٹ پیٹرزبرگ عالمی اقتصادی فورم کے کل رکنی اجلاس میں ورچوئل شرکت کی اور اہم خطاب کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کو ایک صدی کی ان دیکھی بڑی تبدیلیوں اور وبائی صورتحال کا سامنا ہے ، اقتصادی عالمگیریت سرد مہری کا شکار ہے اور اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے نفاذ میں غیر معمولی چیلنجز درپیش ہیں۔ ایسے وقت میں جب عالمی برادری مزید مساوی، پائیدار اور محفوظ ترقی کے حصول کے لیے پرعزم ہے، ہمیں مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے اور امن اور خوشحالی کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کے لیے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کے نفاذ پر کام کرنا چاہیے .شی جن پھنگ نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں ترقی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور حقیقی کثیرالجہتی پر عمل درآمد اس کی بنیاد ہے۔ چینی صدر نے گزشتہ سال ستمبر میں ویڈیو لنک کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے اپنے خطاب میں گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ منصوبہ اشتراکی بین الاقوامی ترقی کے لیے ایک عمدہ خاکہ ترتیب دیتا ہے۔
چینی صدر کے خطاب کا مزید جائزہ لیا جائے تو دوسری یہ چیز اہم رہی کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ترقیاتی شراکت داری کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس خاطر ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے اور ترقیاتی خلیج کو ختم کرنے کے لیے شمال۔جنوب اور جنوب۔جنوب تعاون، تعاون کے وسائل، پلیٹ فارمز اور ترقیاتی شراکت کے نیٹ ورکس، اور ترقیاتی امداد میں اضافہ لازم ہے۔اُن کے خطاب کا تیسرا پہلو اقتصادی عالمگیریت پر مرکوز رہا اور انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کی مشترکہ ترقی کے لیے اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اقتصادی عالمگیریت کے فروغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ ترقیاتی پالیسیوں اور بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کے "نرم رابطے” کو مضبوط بنایا جائے، سپلائی میں خلل، یکطرفہ پابندیوں اور دباؤ کی کوششوں کو مسترد کیا جائے، تجارتی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے عالمی صنعتی اور سپلائی چین کو مستحکم رکھا جائے اور اس وقت بگڑتے ہوئے توانائی اور خوراک کے بحران سے نمٹتے ہوئے عالمی معیشت کو بحال کیا جائے۔
چین چونکہ اس وقت ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے لہذا عالمی فورم سے خطاب کے دوران شی جن پھنگ نے زور دیا کہ جدت پر مبنی ترقی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اختراعی عوامل کے بہاؤ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جائے، اختراع پر تبادلے اور تعاون کو گہرا کیا جائے، معیشت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے گہرے انضمام کو آسان بنایا جائے اور دنیا اس بات کو یقینی بنائے کہ جدت کے ثمرات سے سب مستفید ہو سکیں۔یہ ایک واضح دلیل ہے جو چین کی کوشش کو ثابت کرتی ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ثمرات محض چند ممالک کی دسترس میں نہ رہیں بلکہ دنیا کے وہ خطے جو جدت کے میدان میں کافی پیچھے ہیں ،اُن کے عوام کا بھی مساوی حق ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں ٹیکنالوجی کی مدد سے بہتری لائیں۔
شی جن پھنگ نے چینی معیشت پر بھرپور اعتماد ظاہر کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ چین کی معاشی ترقی کے بنیادی رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔انہوں نے واضح کیا کہ چین ترقیاتی امکانات کی جستجو ، ترقیاتی مواقع کے اشتراک ،عالمی ترقیاتی تعاون کو گہرا کرنے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لیے روس اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔چینی معیشت کی عالمی اہمیت اس باعث بھی زیادہ ہے کہ انسداد وبا کے بہتر اقدامات کی بدولت روزگار اور پیداواری سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک کے طور پر، چین 2020 میں مثبت نمو کی حامل واحد بڑی معیشت رہی ہے، جس کی جی ڈی پی 2021 میں 114.4 ٹریلین یوآن (تقریباً 18.1 ٹریلین ڈالر) سے تجاوز کر گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ٹاپ ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔چین میں امریکن چیمبر آف کامرس کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 70 فیصد سے زائد کمپنیاں رواں برس چین میں دوبارہ سرمایہ کاری کے منصوبے رکھتی ہیں، اور 58 فیصد کا خیال ہے کہ چین میں سرمایہ کاری سے ان کا مجموعی منافع دوسری جگہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو شی جن پھنگ نے اس فورم سے اپنے خطاب میں دنیا کو ایک پیغام بھی دیا کہ چین اپنے کھلے پن کو آگے بڑھاتے ہوئے عالمی معاشی تعاون کو آگے بڑھائے گا اور وبا اور دیگر عالمی تنازعات سے دوچار گلوبل معیشت کی بحالی میں صف اول پر کھڑا رہے گا۔