شاہد افراز خان ،بیجنگ
ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں وبائی صورتحال کے تناظر میں معاشی بحالی کی کوششیں جاری ہیں اور اکثر ممالک پر کساد بازاری کے بادل منڈلا رہے ہیں ،وہاں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین دنیا میں اقتصادی سرگرمیوں کو رواں رکھنے کا انجن بنی ہوئی ہے۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کے استحکام میں مدد مل رہی ہے اور دوسرا یہ کہ دنیا کی ترقی پزیر معیشتوں کو وبائی اثرات کے دباو سے نمٹنے میں بھی خاطر خواہ مدد فراہم کی گئی ہے۔چین نے اس سے قبل سنگین ترین وبائی صورتحال میں بھی دنیا کے لیے اپنے کھلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسداد وبا کے لازمی سامان سمیت دیگر لازمی مصنوعات بھی بروقت پہنچائی ہیں۔
چین کی برآمدات میں تیزی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جولائی میں چین کی برآمدات کی مجموعی مالیت 332.96 بلین ڈالرز رہی ہے جس میں سالانہ بنیادوں پر 18 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ برآمدات کا ڈیٹا ایک بار پھر توقعات سے کہیں بہتر رہا ہے۔چین کی غیر ملکی تجارت میں نمایاں پیش رفت کی وجہ صنعتی چین اور سپلائی چین کی تیزی سے بحالی ہے۔ چین کی غیر ملکی تجارت کی کامیابیوں کو ملکی طلب کی مسلسل بہتری سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ چین نے ہمیشہ کھلے پن کو بڑھانے اور مارکیٹ منافع کو دنیا کے ساتھ بانٹنے پر اصرار کیا ہے، تاکہ عالمی کمپنیاں چینی مارکیٹ کی توقعات کے بارے میں پر امید رہیں۔
یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ایک طویل عرصے سے، چین عملی اقدامات کے ذریعے اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دے رہا ہے اور سودمند تعاون کا خواہاں ہے۔ لہٰذا، چین دنیا کو نہ صرف مکمل طور پر فعال پیداواری مرکز اور لامحدود صلاحیت کے ساتھ صارفی منڈی فراہم کرتا ہے، بلکہ ایک ایسا ترقیاتی نمونہ بھی فراہم کرتا ہے جو مسلسل کھلے پن کے ذریعے عالمی معیشت کی بحالی کو فروغ دے رہا ہے۔چین کی بیرونی تجارت میں ایک بار پھر توقعات سے زیادہ اضافے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چین کی معیشت مسلسل مستحکم اور بہتر ہو رہی ہے۔ اگرچہ بدستور غیر یقینی عوامل موجود ہیں، لیکن چین کی مضبوط معیشت، مضبوط صلاحیت اور طویل مدتی بہتری کا بنیادی رجحان تبدیل نہیں ہوا ہے۔چین کا اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو وسعت دینے کا عزم تبدیل نہیں ہوا ہے ، اور چین کا دروازہ مزید وسیع اور کھلا ہو چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھی چینی معیشت کے حوالے سے پراعتماد ہے اور کھل کر اس حوالے سے اظہار خیال بھی کرتی ہے۔ابھی حال ہی میں دنیا کے پانچ براعظموں کے 22 ممالک میں کیے گئے ایک عالمی رائے عامہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ بیرون ملک مقیم لوگوں کی اکثریت گزشتہ دس سالوں میں چین کی حاصل کردہ ترقی کی کامیابیوں کو بہت سراہتی ہے اور 78.34 فیصد افراد کا خیال ہے کہ "چین کی معیشت عالمی معیشت کا انجن بن چکی ہے”۔ اس سروے کا انعقاد چائنا میڈیا گروپ اور چین کی رین من یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل گورننس اینڈ پبلک اوپینین ایکولوجی کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ سروے میں ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور آسٹریلیا کے باشندے شامل ہیں، ساتھ ہی برازیل، ارجنٹائن، تھائی لینڈ اور پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لوگوں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ سروے نتائج کے مطابق چین کی اقتصادی کامیابیوں کو سراہنے والے افراد کا تناسب افریقہ میں 91.46 فیصد ،یورپ میں 81.60 فیصد اور شمالی امریکہ میں 78.09فیصد رہا ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ "دی بیلٹ اینڈ روڈ” سے وابستہ ممالک کا تناسب جو چین کی معیشت کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں، دی بیلٹ اینڈ روڈ سے غیر وابستہ ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے، جو 84.13 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
سروے میں، 76.65فیصد لوگوں نے اس امر کو سراہا کہ چین کی فی کس جی ڈی پی پچھلے دس سالوں میں 6100 امریکی ڈالر سے بڑھ کر 12000 امریکی ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے، یہ کامیابی قابل ذکر ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں چین میں تقریباً 100 ملین دیہی غریب لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے جو کہ انسانیت کی غربت کے خاتمے کی تاریخ میں ایک معجزہ ہے۔دنیا کے نزدیک غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین کی کامیابی کی بہت سی وجوہات میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں کہ چین کی معیشت تیز رفتار ترقی کو برقرار رکھے ہوئےہے اور چینی قیادت بھرپور عزم اور مضبوطی سے اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کوشش کررہی ہے۔ یہ چین کی ترقی کے سرفہرست دو اہم ترین عوامل ہیں۔اسی طرح یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ عالمی سروے میں شامل لوگوں کی اکثریت چینی عوام کے بارے میں مثبت تاثر رکھتی ہے، رائے عامہ کے مطابق چینی لوگ محنتی ہیں اور شوق سے کام کرتے ہیں ۔ تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی کے لحاظ سے، لوگ چین کی فائیو جی ترقی، مصنوعی ذہانت اور تیز رفتار ریلوے سے سب سے زیادہ متاثر نظر آئے۔ یہ سروے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کا اعتماد چین پر مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کی اکثریت سیاست سے بالاتر ہو کر حقائق پر یقین رکھتی ہے ، یہی درحقیقت چین کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔