کالم

آزادی ہے یا بغاوت

کشف کا قلم

پاکستانی پرچم

ہم اکثروبیشتر ہر خواب بنتے ہیں خواہ وہ دلکش بزنس امپائر سیٹ کرنا ہو ہو یا من پسند کا حصول، یورپ میں سیر و تفریح ہو دنیا یا میں کہیں بھی اور کہیں بھی جانے کی تمنا۔۔۔الغرض آزادی ہمیں ہمیشہ ہی متاثر کن لگتی ہے۔
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ آزادی کسے کہتے اور اس کی تعریف کیا ہے؟
آج کل یعنی عصر حاضر کے اعتبار سے دیکھا جائے آزادی کا لفظ سنتے ہی کے ذہنوں میں بغاوت کی تصویر کشی ہوتی۔ ایسا ہی ہے نا ہے نا؟
جی بالکل! ہمارے ہاں یہی تصور تنا آور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ پھر چاہے وہ ہمارے گھروں کی وہ بیٹیاں ہوں جو معاشرے کی رسوم و رواج سے ہٹ کر اپنے زوق کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر کیلئے کوشاں ہوں یا وہ ہونہار مرد حضرات جن کے کندھے بھاری بھرکم خاندان کے باجھ تلے جھک گئے۔ کیا گھر کا دوسرا تیسرا فرد انکا زور بازو نہیں بن سکتا یا مالی استحکامی صرف واحد مرد پہ لاگو ہے؟
در حقیقت مرد اور عورت دو متضاد شخصیات ہیں۔ اگر مرد پر کفالت فرض ہے اسی طرح ایک عورت پر بھی گھر داری اور ایک با شعور خاندان کی تربیت اور نشوونما درکار ہے۔ مثال کے طور پہ مرد اگر کسی سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہے تو عورت وہ قابل وزیر ہے کہ اس پہ رعایا سمیت پوری حکومت منحصر ہے۔ لہذا آزادی کے اس قدیم تصور کی تصحیح کی اشد ضرورت ہے۔
یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ Self Employed یعنی خود مختاری صرف مرد کیلئے منسوب کی گئی۔ عقل کے ناقص ان تعلیم یافتہ لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ اماں خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ نہ صرف تجارت کرنے والی ایک با وقار، عظیم، کاروباری خاتون ثابت ہوئیں بلکہ عالم دو جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نکاح کا پیغام دینے میں بھی پہل فرمائی…تو کیا اس میں بھی کوئی قباحت ہے؟ نہیں نا…
عمومی طور پر یہ پدر شاہی نظام میں رائج ہے جہاں ایک مخصوص طبقہ یا فرد( حکمران بالا) اپنی ریاست کی بقاء کیلئے اپنے زیریں لوگوں پہ اجاراداری کرتے، جہاں مرد کبھی غلط نہیں ہو سکتا (Men’s wrong is always right) کے قانون کا بول بالا ہوتا۔ یہ ٹھیکہ دار طاقت کے سر چڑھتے نشے میں دھت اور وہ زمینی خدا اپنا دین( Customized Islam) بنا کر اور اس میں اپنی من گھڑت رسومات کو ملانے پر بھی نادم نہیں۔
شرمسار ہے یہ مقام کہ جہاں زوال پذیر ہے مسلمان!

خیر 14 اگست آزادی کے اس عظیم دن کے طفیل خدا سے التجا ہے کہ وہ ہم خاکساروں کی خطاؤں کو درگزر اور خستہ حالی پر رحم فرمائے۔ حالانکہ اس کی پیدائش کے موقع محل میں یہ بات واضح دلائل سے بتا دی گئی
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ إلا اللہ
سو اس کا تقاضا محض گلی محلوں میں باجے بجانے اور بلند و بالا جھنڈے لہرانے سے پورا نہیں ہونا بلکہ اس کا مقصد حصول انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے بتوں کو توڑنے، محتاجی کی قید سے رہائی اور غلامی کے ناسور سے نجات پانا ہے۔
کیونکہ یہی آزادی کا اصل نصب العین ہے

لہٰذا حدود و تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ان زنجیروں سے رہائی پانا بغاوت کے مترادف ہرگز نہیں بلکہ خودی اور ذات کی تکمیل کا ایک سفر ہے۔
دعا گو ہوں کہ یہ ملک شاد و آباد رہے اور اس پاک سرزمین کو ریاست مدینہ کا عملی نمونہ بننے میں کامیابی و کامرانی حاصل ہو۔

Leave a Reply

Back to top button