اسلام آباد پولیس کے جوان کی بہادری مگر زندگی نے ساتھ نہیں دیا
راوی : امین اللہ
تحریر: بابرشیراز
میں تھانہ شہزاد ٹاؤن میں بطورِ کمپیوٹر آپریٹر تعینات تھا جب عاقب ٹرانسفر ہوکر تھانے میں آیا۔۔۔۔۔
اُس کی بھلی طبیعت کی وجہ سے چند ہی دنوں میں ہماری دوستی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ صبح سات بجے سے رات دس گیارہ بجے تک کمپیوٹر کے کی۔بورڈ پر انگلیوں کا رقص چلتا رہتا۔۔۔۔
عاقب جنرل ڈیوٹی کر رہا تھا لیکن جب بھی موقع ملتا ۔۔۔وہ میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔وقت سے آنکھ بچا کر ہنس بول لیتے۔۔۔
ایک دن میں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ تفتیش کا کام سیکھے کیونکہ اُس کا ذہن اور لکھائی دونوں خوبصورت ہیں۔۔۔۔۔
میری بات کو پلے باندھتے ہوئے کچھ دنوں بعد وہ ایک تفتیشی افسر کےساتھ جُڑ گیا اور پولیس ورک سیکھنے میں مگن ہو گیا۔۔۔اب اُس سے ملاقات زرا کم ہوتی تھی لیکن محبت بدستور قائم رہی۔۔۔تھوڑے ہی عرصے میں وہ اپنے کام میں طاق ہو چکا تھا۔۔۔
تبادلوں کی ہوا چلی تو اُس کا تبادلہ کسی دوسری جگہ ہو گیا جبکہ میں اُسی جگہ ہی مزدوری کرتا رہا۔۔
چند ماہ بعد ایس۔ایچ۔او نے تھانے کے تفتیشی افسران کی میٹنگ بلائی جس میں کمی نفری کا ازلی رونا بھی رویا گیا۔۔۔۔۔ایس۔ایچ۔او نے افسران بالا کو مزید نفری کی درخواست دی ۔۔۔۔درخواست قبول ہوئی اور عاقب بھی دیگر جوانوں کیساتھ دوبارہ تھانے میں پہنچ گیا۔۔۔۔۔
پرانی جگہ واپس آ کر وہ خوش تھا کہ مرضی کا ماحول ملے تو نوکری نوکری نہیں رہتی۔۔۔۔میں حسبِ معمول صبح سات سے رات گئے تک نوکری کر رہا تھا جبکہ عاقب کی ڈیوٹی عموماً ڈیوٹی افسر کیساتھ ہوتی۔۔۔
صبح جب وہ ڈیوٹی پر آتا تو مجھے اپنی کرسی پر موجود پاتا اور جب وہ چھٹی کر کے جاتا تو بھی میں وہیں ہوتا۔۔۔وہ مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے کہتا ” خان جی اس کمپیوٹر کی جان چھوڑو۔۔۔عینک تو تمہیں لگ ہی چکی ہے۔۔۔تفتیش کی طرف آؤ "
میں اُس کی بات سن کر ہنس دیتا کہ میرا مزاج شاید تفتیش کے لئے موزوں نہیں تھا ۔۔۔2022 کے اپریل کی بیس تاریخ تھی۔۔۔رمضان شریف کا بابرکت مہینہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔
اُس رات جب اُس سے میری ملاقات ہوئی تو اُس نے معمول سے ہٹ کر مجھے جپھی ڈالتے ہوئے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور اپنے افسر کے ساتھ تھانے سے نکل گیا جبکہ میں نے رات گیارہ بجے نوکری ختم کی اور لال انگارہ آنکھوں کو مسلتے ہوئے سوتے جاگتے ذہن کیساتھ بائیک بھگاتا ہوا اپنے گھر پہنچا۔۔۔بستر پر لیٹتے ہی بے ہوشی کی نیند نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔۔۔۔
سحری کے وقت گھر والوں نے جگایا تو میری آنکھیں ہنوز جل رہی تھیں۔۔۔ابھی سحری میں کچھ وقت باقی تھا کہ موبائل پر آصف خان کی کال آ گئی۔۔۔۔آصف خان پہلے ہمارے ساتھ ڈیوٹی کر چکا تھا اور اب دوسرے تھانے میں فرائض انجام دے رہا تھا۔
خیر خیریت کے بعد وہ پوچھنے لگا ” جنازہ کس وقت ہے؟”
میں نے پوچھا کس کا؟
کہنے لگا "عاقب کا”
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کس کے جنازے کی بات کر رہا ہے۔۔۔
میں نے اُلجھے ہوئے انداز میں پھر پوچھا
” کس کے جنازے کا پوچھ رہے ہو ، کون سا عاقب؟ "
کہنے لگا ” اپنا عاقب "
میرا سارا وجود کانپ گیا۔۔۔۔۔چند سیکنڈ کے لئے میرے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔۔۔۔آصف ہیلو ہیلو کر رہا تھا۔۔۔حواس بحال ہوئے تو میں نے تفصیل پوچھی۔۔۔کہنے لگا تم تھانے پہنچو باقی بات وہیں ہو گی۔۔۔
میں نے جلدی جلدی کپڑے تبدیل کئے اور اُڑتا ہوا تھانے پہنچا۔۔
پارکنگ میں بائیک کھڑا کر کے میں نے رپورٹنگ روم کی طرف دیکھا تو مجھے لگا جیسے تھانے کی دیواریں بھی رو رہی ہوں۔۔۔دھڑکتے دل کیساتھ میں روزنامچے میں داخل ہوا جہاں رش لگا ہوا تھا۔۔۔ہر موجود غم و غصے کی تصویر بنا ہوا تھا۔۔۔میں آصف کو تلاش کر کے اُس کے پاس پہنچا۔۔۔۔وہ سسکتا ہوا میرے گلے لگ گیا۔۔۔میری آواز بھی بھرا گئی۔۔۔مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا سگا بھائی مر گیا ہو۔۔۔ایک خالی کمرے میں آصف اور میں بیٹھ گئے۔۔۔۔
میں نے پوچھا ” کیا ہوا؟”
کہنے لگا۔۔۔۔ ” رات عاقب اپنے ڈیوٹی افسر کیساتھ ترامڑی چوک میں تھا۔۔۔۔تین بجے ٹرک ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ مخبر نے اطلاع دی کہ ترلائی میں کچھ منشیات فروش بھاری مقدار میں زہرِ قاتل سمیت موجود ہیں۔۔۔۔
کال سن کر افسر ، ماتحت دونوں چائے چھوڑ کر ترلائی کی طرف چل پڑے۔۔ڈیوٹی افسر نے کمک کے لئے وائرلیس پر پیغام نشر کیا جس پر فوری ، دو نزدیکی موٹر سائیکل سوار جنہیں سرکاری زبان میں ” ایگل” کہا جاتا ہے روانہ کر دئیے گئے۔۔۔
ترلائی کی حدود میں پہنچ کر عاقب اور ڈیوٹی افسر ایگل کا انتظار کرنے لگے جو چند ہی منٹوں میں بتائی گئی جگہ پر پہنچ گئے۔۔۔۔۔
مخبر کی اطلاع کے مطابق منشیات فروشوں کی کمین گاہ کا جائزہ لیا گیا اور چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر ایکشن کی تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی تدبیر کی جانے لگیں۔۔۔
چاروں ” ملازم ” اپنی اپنی پوزیشن کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے ۔۔۔۔
عاقب مطلوبہ ہدف کی فرنٹ سائیڈ کوور کرنے کے لئے آگے نکل گیا۔۔۔۔۔اندھیرا ہونے کی وجہ سے نظری ملاپ ممکن نہ تھا۔۔۔۔
عاقب اپنی منتخب کردہ پوزیشن کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک جھاڑیوں میں سے ایک انسانی ہیولے نے بھاگنے کی کوشش کی جو بالکل غیر متوقع حرکت تھی۔۔۔۔
عاقب نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے ، بھاگتے ہوئے سائے پر چھلانگ لگائی اور اسے دبوچنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔اسی کوشش میں بھاگنے والے نے جو منشیات فروشوں کا سرغنہ تھا , عاقب کی چھاتی پر پستول رکھ کر گھوڑا دبا دیا۔۔۔۔۔
فائر ہوا تو ماحول جاگ اٹھا۔۔۔۔ڈیوٹی افسر اور ایگل کے دو جوان آوازیں دیتے ، للکارتے ہوئے فائر کی آواز کی سمت بھاگے جہاں عاقب دل میں آٹھ گرام دھات سمائے زمین پر پڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گولی بلکل نزدیک سے اور عین دل پر لگی تھی جس کی وجہ سے وہ خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے قبل ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
بھاگنے والے بھاگ چکے تھے۔۔۔۔تمام افسران کو واقعہ کی اطلاع کر دی گئی۔۔۔ آئی جی اسلام آباد فوراً موقع پر پہنچے ان کے ہمراہ اسلام آباد پولیس کے دیگر اعلی ادنٰی افسران بھی پہنچ گئے۔۔۔۔عاقب کے جسدِ خاکی کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں اُس کے والدین بھی آ گئے۔۔۔۔عاقب کے والد بھی اسلام آباد پولیس کے اے۔ایس۔آئی ریٹائر ہیں۔۔۔انہوں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور اس غم کو بڑی شان سے اندر اتار لیا۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی جی صاحب کی بے قراری بھی دیدنی تھی۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے ان کا حقیقی بیٹا شہید ہو گیا ہو۔۔۔۔۔
ہسپتال میں کھڑے کھڑے انہوں نے تمام فورس کو اڑتالیس گھنٹوں کا وقت دیا کہ ہر حال میں ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے ۔۔۔۔۔
وہ لمحات بڑے عجیب تھے ، اُس وقت افسران ماتحتان ایک جسم لگ رہے تھے۔۔۔۔
آئی جی صاحب کے حکم کے عین مطابق اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر ملزمان کا کُھرا ٹھا لیا گیا ۔افسران کی ہدایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے پولیس پارٹیاں مرتب کی گئیں۔۔۔۔۔
دورانِ ریڈ ملزمان نے پولیس پارٹی پر کُھلی فائرنگ شروع کر دی۔۔۔جواباً پولیس پارٹی نے بھی دفاعی فائر کیا جس کے نتیجے میں ایک ملزم ہلاک جبکہ دوسرا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جسے بعد ازاں گرفتار کرکے عدالت کے حضور انصاف کے لئے پیش کر دیا گیا۔۔۔۔۔ہلاک ہونے والا ملزم وہی تھا جس کے فائر سے عاقب کے دل نے دھڑکنا بند کیا تھا۔۔۔۔۔۔
بعد کی کہانی عام کہانیوں جیسی ہی ہے۔۔۔۔قانونی تقاضے پورے کئے گئے۔۔۔سب کچھ بحال ہو گیا لیکن میرا ہنس مُکھ عاقب۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
بہت شکریہ ہماری سچ بیانی کو شئیر کرنے گا۔۔۔۔۔بابرشیراز
اس طرح کی کوئی اور بھی کہانی ہو تو ہمارے [email protected] پر شیئر کرسکتے ہیں۔ میں خود بھی ایک کہانی لکھوں گا اسلام آباد پولیس کے بارے میں۔