نثر

میں ایک من پسند غلیل نہیں خرید سکا

بابرشیراز
میں ایک من پسند غلیل نہیں خرید سکا یہاں تک کہ شکار کا موسم دبے پاؤں رخصت ہو گیا۔
جاتے ہوئے موسم نے ایک راہ سجھائی , میں نے دوستی کرنے کی سازش بنی اور۔۔۔۔ پیڑوں سے یارانہ کر لیا۔
میں نے پرندوں کو رجھانے کے لئے۔۔۔۔ کئی باغ لگائے جنہیں وقت کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہو کر اجاڑتا رہا۔۔۔۔۔
میں ایک جگہ سے دوسری جگہ باغ لگاتا رہا۔۔۔۔پھول اگاتا رہا۔۔۔۔۔
پھر اک دن جانے کیا ہوا کہ پھولوں کی , پیڑوں کی سرگوشیاں مجھے سنائی دینے لگیں۔۔۔۔۔
اب ہم گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔۔۔۔۔
رفتہ رفتہ پرندے بھی شریکِ بزم ہونے لگے۔۔۔
چنگیر میں رکھی روٹی آدھی آدھی ہونے لگی
اب بارش بھی سانجھی تھی اور دھوپ بھی
صحن میں بیٹھنا بھی مشکل ہو گیا کہ پھولوں کا پرندوں کا , بیس گرام مٹی میں چھپے پچاس ہزار خوردبینی جانداروں کا مخاطب میں ہوتا۔
ایسے میں کوئی کیا جاگتا کیا سوتا۔۔۔۔

Leave a Reply

Back to top button