سچی کہانی

تاجو

بابرشیراز
دیکھنے میں تو لڑکی تھی مگر اُس میں مردانہ طاقت پیدائشی تھی۔ جس کا اظہاروہ بے ساختہ اور فراخ دلی سے کردیا کرتی ۔اللہ بخشے تاجو کی بے جی اکثراُسے کوسنے دیتی اور کہتی:
"اس سے تو بہتر تھا قادر اِسے لڑکا بنا دیتا نہ جانے قدرت کو کیا منظور تھا عین پیدائش کے وقت یہ لڑکی بن گئی۔”
کم عمری میں ہی وہ بھائیوں کو بے جی کی چِلم کی نَڑی سے اکثر پیٹ دیا کرتی تھی۔محلے کے ہم عمر تاجو سے دور بھاگتے اور تو اور راہ چلتے ہوئے بھی اس کے شر ارت سے محفوظ نہ تھے ۔ جانتے بوجھتے وہ ان سےپنگا کرنے سے باز نہ آتی ۔ اس کی آوازمیں نسوانیت نام کو نہ تھی۔ جب کبھی کسے محلے دار یا جاننے والے کو دیکھ لیتی تو دُور سے ہی باآوازِ بلند سلام مارتی جس پر محلے والے سٹپٹا جاتےکیوں کہ گاؤں میں ابھی تک کسی لڑکی کا گلی محلے میں چلتے ہوئےاونچی آواز میں سلام کرنے کا نہ ہی رواج تھا بلکہ اسے معیوب بھی سمجھا جاتا۔مگر وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار سلام پھینک کر یہ جا اور وہ جا۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے تاجو کو روتے یا منہ بسورتے کبھی نہیں دیکھا۔ ہمیشہ مردوں کی طرح ہنستے، قہقہے لگاتے اور بھاگتے دوڑتے ہی دیکھا۔ وہ ہر ایسا کام کرنے کے لیےآمادہ رہتی جو عام طور پر لڑکے کیا کرتے۔ وہ بھینسوں کو چرانے کے لیے گھر سے دور لے جاتی اور مزے سے بھینس پر سواری کرتی۔ گاؤں میں پانی کا جوہڑ تھا جو کہ خاصا بڑا اور گہرا بھی تھا۔ جسے مقامی زبان میں "بَن” کہا جاتا ہے۔ تاجو بھینسوں کوپانی پلانے اور نہلانے کی غرض سےبَن تک لے جاتی اور خود بھی نہاتی۔پہلے وہ شلوار کے ناڑے کو کس کر باندھتی پھر شلوار کے پائنچے گھٹنوں سے اوپر کھینچتی،شلوار میں ہوا بھرتی یوں شلوار دو غباروں کی شکل دھار لیتی جو اُسے بن کے گہرے پانی میں ڈوبنے سے محفوظ رکھتے۔پھر وہ سارے بَن کو تیرتی ہوئی فاتحانہ انداز میں پار کرتی۔. وہ اب بھی پہلے کی طرح کیکر کے درخت پر چڑھ کر نیلی چڑیوں کے لٹکتے ہوئے گھونسلے اُتار لیتی۔ کسی جگہ چھوٹی مکھی کے شہد کا چھتا نظر آجاتا تو اُس کی خوشی دیدنی ہوتی،وہ بڑے زبردست طریقے سے سر پر بھاری پگڑی باندھ کر،منہ لپیٹ کر پرانی سرسوں یا گھاس کی مشعل بَنا،جلا اور پھر بُجھا کر ایک ماہر شکاری کی طرح چھتے پر ہاتھ ڈالتی اور ہر بار دوچار شہد کی مکھیاں اِس منہ زور تخلیق کے گندمی جسم پر اپنے بوسوں کے نشان چھوڑ جاتیں۔ مگر وہ اُن کے ڈنک کی لذت کو بھول کر اپنی منزل مراد کاٹ لاتی۔ جو کہ کُل ملا کر بھی آدھا پاؤ یا اس سے کچھ زیادہ ہی ہوتا۔عموماً جن کاموں سےمردوں کو بھی ڈر لگتا ہے وہ سارے کام تاجو با آسانی کر گزرتی۔

تاجو تمام عمر مردانہ کاموں میں ہی مشغول رہی۔وہ کب شادی کے قابل ہوئی کسی کو خبر ہی نہ ہوسکی۔ قریبی رشتہ دار تو اُس کا نام سُن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے۔ دور دراز سے ایک دو رشتے آئے مگر بات نہ بنی۔ رشتے دار بھی اس کے رشتے کی بات سے کنی کتراتے۔ تاجو بظاہر توان سب باتوں سے بےخبر اور لاپرواہ رہتی۔جبکہ تاجو کی ہم عمرلڑکیاں اور لڑکے ،ماں باپ بن چکے تھے۔ تاجو کے ہاتھ میں کبھی آپازلیخا کا بچہ سہیل چیخ چیخ کر روتا ہوا نظر آتا تو کبھی شعیبی کی گڑیا جیسی بیٹی کے گال تاجو کی چٹکیوں کے نشانات سے سجے ہوئے ملتے۔ وہ سب بچوں سے ایسا ہی سلوک کرتی ۔مگر اُس کے رشتے کی بات کوئی نہ کرتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تاجو کے گھر والوں نے بھی کوئی خاص کوشش نہیں کی مگر وہ کرتے بھی کیسے،نہ ہی زمین جائیداد اتنی تھی کہ کوئی لالچ میں آکر تاجو کے ساتھ شادی کرتا اور نہ خاندان میں کوئی اور ایسی اضافی خوبی تھی کہ کوئی متوجہ ہوتا۔تاجو کے بالوں میں چاندی اترنا شروع ہو گئی۔ کل کی تاجو اب خالہ تاجو یا تائی تاجو ہوتی جارہی تھی وہ ہر منہ زور کی طرح وقت سے جی لگا کے لڑتی رہی مگر وقت کا بے رحم دیوتا کسی بھی منہ زور پر رحم نہیں کرتا۔
اچانک ایک دن صبح سویرےمحلے کے نزدیکی گھروں سے رونے اور کوسنے کی ملی جلی آوازوں کا شور اُٹھا۔ میں نے سوچا اللہ نہ کرے غفور موچی کچھ دنوں سے بیمار تھا کہیں وہ ہی۔ ۔ ۔ ۔ تجسس بڑھا اور قدم اپنے آپ اُس شور کی طرف لے گئے۔ وہاں پہنچ کرجو دیکھا اور سُنا وہ کسی کےلیے بھی ناقابلِ یقین تھا ۔گاؤں کےسب بڑے بوڑھے اور جوان ایسے منہ کھولے کھڑے تھے جیسے کسی نے انہیں "دم پِیر چَمُٹ” کردیا ہو۔تائی تاجو ایک دھریک کے درخت کے نیچے چپ چاپ بیٹھی تھی اور اس کی آنکھیں زمین میں سوراخ کرتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ آپا زلیخا اپنے سینے پر دوہتھڑ مارمار کر تاجو کو کوس رہی تھی۔ ایک طرف آپا زلیخا کا سولہ سال کا سہیل نظریں جھکائے آنکھوں ہی آنکھوں سے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن سے میل نکال رہا تھا۔ جب ساری بات میری سمجھ میں آئی، تو پھر مجھے یہ سمجھ نہ آئے کہ اب کیا سمجھوں؟
آپا زلیخا نے تاجو پر الزام لگایا تھا کہ تاجو اُس کے بیٹے سہیل کے ساتھ غلط ہے۔ سہیل بلاشبہ خوبصورت لڑکاتھا خصوصاً اُس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں، جو اس وقت آنسووں سے بھری اور لال تھیں اور وہاں موجودگاؤں کے سب لوگ گم صم۔ کسی میں کوئی بات کرنے جیسے حوصلہ ہی نہ بچا ہو ۔آپا زلیخا تھی کہ جو منہ میں آئے بولے چلی جارہی تھی۔اچانک تاجو دھریک کے نیچے سے اُٹھی اور گاؤں سے باہر جانے والی پگڈنڈی پر ، ہاتھ میں پکڑا جنگلی اَک کا ڈنڈا ٹیکتی منظر سے غائب ہو گئی لوگ سر جھکائے دائیں بائیں ہو گئے۔ مجھے بھی یاد آیا کہ بھینس کا کَٹا کُھلا چھوڑ آیا ہوں اور میں تیز قدم اُٹھاتا ہواگھر لوٹ آیا۔
گاؤں کےدوسرے افراد کی طرح ہمارے گھر میں بھی ،اس واقع پر غور کرتا ہوا ہر فرد، ایک دوسرے سے آنکھ چرا رہا تھا،اس معاملے پر کوئی کسی سے بات کرے بھی تو کیا کرے۔میں بھی اپنے روزمرہ کے کام نپٹانے میں لگ گیا مگر دل دماغ میں تاجو ہی بھاگ دوڑ رہی تھی۔ میں نے سوچا جلدی سے اپنی بھینسوں کو چارہ پانی ديکر بشیر مستری کے پاس جاتا ہوں وہ سیانا بندہ ہے اُس کے ساتھ گپ لگاتا ہوں تاجو کے بارے میں۔اتنے میں مصطفٰی پٹواری کا بیٹا اپنی بھینسیں لے کر ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا اُس نے دُور ہی سے آواز دی اور کہنے لگا:
"چاچا اپنی بھینسیں کھول دو میں بَن سے پانی پلا کر چرا لاؤں گا”
میں نے بنا کچھ سوچے اپنی بھینسیں اُس کے ساتھ کر دیں۔ اورگھر کے دوسرے کام کرنے لگا۔ اتنے میں بشیر مستری اپنے اوزار اٹھائے پہنچ گیا میں دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو ادھر ہی ملاقات ہوگئی۔ ہم باتیں کرنےلگے۔میں نے بشیر مستری سے کہا :
” بشیر تُو بیٹھ میں چائے کا بتا کر آتا ہوں”۔
میں چائے کا کہہ کر واپس آیا ہم جانورں کے تھان پر ہی منجی بچھا کر بیٹھ گئے۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ بات کیسے شروع کروں۔ میرے ماتھے پر شکنیں دیکھ کر بشیر نے خود ہی بات شروع کردی، کہنے لگا :
"تُو نے کچھ سنا ؟میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ کوئی چکر ہے، یار تُو خود دیکھ کیا اسطرح گزارا ہو سکتا ہے؟ اوہ بھائی میرے، جذبے بڑے منہ زور ہوتے ہیں، بندے کا کیا اعتبار کب کیا کردے۔ تاجو بھی تو انسان ہی تھی اور کتنےہی انسانوں سے زیادہ اور زندہ انسان۔ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔”
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ مصطفیٰ کا بیٹا بھاگتا ہوا ہمارے گیٹ کے اندر داخل ہوا۔ اُس کا سانس پُھولا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا کوئی بھینس بھاگ گئی؟وہ سانس بحال کرتا ہوا بولا:
"چاچا وہ تائی تاجو مر گئی۔”
میں ہکا بکا رہ گیا ۔
” کیا کہہ رہا ہے۔”
"چاچا جلدی آؤ وہ تائی تاجو ، بَن میں ڈوب کر مر گئی ہے۔”
میں نے بشیر مستری کی طرف دیکھا اور ہم جلدی سے بَن کی طرف بھاگے۔ سارا گاؤں وہاں اکٹھا ہو چکا تھا۔ تاجو کی لاش بَن کے عین وسط میں الٹی پڑی تیر رہی تھی۔اُس تاجو کی،جو سات آٹھ سال کی عمر میں، اِس بَن کو آرام سے تیر کر پار کرتی اور اس کے کئی چکر لگاتی، وہ منہ زور تاجو جو پُھلاہی کی "مُنڈھی” یعنی جَڑ کو کلہاڑے کے ایک وار سے دو ٹوٹے کر دیا کرتی تھی۔وہ تاجو جو گاؤں کے مردوں سے زیادہ وزن پر اُٹھا کر چلتی تھی، ایک الزام کا وزن نہ سہار سکی؟ یا بشیر مستری کے بقول منہ زور جذبوں کے آگے ہار گئی؟اتنے میں آپا زلیخا کا سہیل ہجوم کو چیرتا ہوا آیا اور آتے ہی بَن میں کود گیا ۔اُس سولہ سالہ لڑکے نے سنتالیس سال کی تاجو کی لاش کو باہر نکالا اور دھاڑیں مارمار کر رونے لگا ۔ وہ بار بار تاجو کے پاؤں کو آنکھوں سے لگاتا اور اُنہیں چومتا۔اچانک وہ کھڑا ہوگیامجھےیوں محسوس ہوا جیسے تاجو کی روح اُس میں داخل ہوگئی ہے۔وہ غصے سے لال پیلا وہاں کھڑےگاؤں کےسب لوگوں سے مخاطب ہوا اور اور بولا:
"سب سن لو مائی تاجوکا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ میری ہی سگی ماں ہےجس نے آج اسے قتل کر دیا ہے۔میری وجہ سے آج ایک ماں کا قتل نہیں بلکہ دو کا ہوا ہے ۔سارے غور سے سُن لو مائی تاجو میری ماں تھی،میری ماں ہے اور میری ماں رہے گی۔”
اُس نے میرے ساتھ کھڑے بشیر مستری کو مخاطب کیا اور کہنے لگا چاچا بشیرتم سیانے ہواگر مجھے پھانسی ہو جائےتومیری قبر مائی تاجو کی قبر کے ساتھ ہی بنانا۔

Leave a Reply

Back to top button