شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین میں کسان جمعہ کو فصلوں کی کٹائی کا پانچواں تہوار منا رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین نے عالمی غذائی تحفظ کے حوالے سے ایک مشکل ترین سال میں بھی اناج کی ایک اور بمپر فصل سامنے لائی ہے۔یہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ دنیا کی تقریباً 9 فیصد قابل کاشت اراضی کے ساتھ، چین کو عالمی آبادی کے تقریباً پانچواں حصے کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ویسے بھی چین کا شمار دنیا کے بڑے زرعی ممالک میں کیا جاتا ہے جو زراعت کے وسائل سے مالا مال ہیں اور جہاں جدت کی بدولت زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں حد تک خودکفالت کی منزل حاصل کر لی گئی ۔اس کی اہم وجہ ملک بھر میں فصلوں کی بہتر پیداوار کے لیے جدید زرعی مشینری کا استعمال اورکاشتکاروں کی خوشحالی اور دیہی حیات کاری جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اسی طرح ملک میں زرعی سائنسدانوں اور کسانوں کی بھی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی اختراعی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کریں اور زرعی شعبے کو ترقی دیں۔
ملک کی اعلیٰ قیادت کے نزدیک بھی غذائی تحفظ بنیادی قومی مفادات میں شامل ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ کی ہی بات کی جائے تو انہوں نے متعدد مواقع پر لوگوں کے لیے مناسب خوراک کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔انہوں نے ہمیشہ یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ غذائی تحفظ کے حوالے سے چوکس رہا جائے، اور ملکی سطح پر اناج کی پیداوار، وافر پیداواری صلاحیت، معتدل خوراک کی درآمدات، اور تکنیکی مدد پر مبنی خود کفالت کے اصول پر عمل پیرا رہا جائے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے قومی اقتصادی اور سماجی ترقی اور سال 2035 تک کے طویل المیعاد مقاصد کے لیے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ (2021تا2025) کے خاکے میں غذائی تحفظ کی حکمت عملی کے نفاذ کو شامل کیا ہے۔اس خاکے میں اناج کے مکمل تحفظ اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور غذائی تحفظ سے متعلق قانون سازی کو فروغ دینے کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ملک نے 2021 میں خوراک کے ضیاع کے خلاف قانون بھی منظور کیا، جس کا مقصد خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے ایک طویل مدتی فریم ورک کی تشکیل ہے، جو قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔
چین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ رواں سال فوڈ سیکیورٹی کا قانون بنایا جائے گا۔چین کی جانب سے غذائی تحفظ اور زرعی ترقی کو فروغ دینے کے لیےبیج کی صنعت کی ترقی کو ملک کی پالیسی ترجیحات میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس میں مخصوص اقدامات جیسے کہ بیج کی صنعت سے متعلق ایکشن پلان کا نفاذ اور اس شعبے میں املاک دانش کے تحفظ کو بڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک، چین میں بیجوں کی افزائش اور پیداوار کے قومی مراکز کی تعداد بڑھ کر 216 ہو چکی ہے۔ یہ مرکز اناج، کپاس، تیل اور چینی کے علاوہ دیگر زرعی اجناس کے لیے بیج پیدا کرتے ہیں۔
چین کی جانب سے زراعت کو اہمیت دینے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ، 2019 کے آخر تک، چین کے پاس قابل کاشت زرعی اراضی 128 ملین ہیکٹر ہو چکی ہے جبکہ رواں سال مزید 6.67 ملین ہیکٹر اعلیٰ معیاری زرعی اراضی تیار کی جائے گی۔چینی کسانوں اور زرعی ماہرین کی کوششوں کی بدولت ملک میں زرعی پیداوار کی مشینی، انٹیلی جنٹ اور سبز ترقی کو تیز رفتاری سے فروغ دیتے ہوئے غذائی تحفظ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کی زرعی اور دیہی ترقی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین میں اناج کی پیداوار نے مسلسل 18 سالوں سے زرعی مشینری و آلات اور زرعی میکانائزیشن کی بھرپور مدد سے بمپر فصلیں حاصل کی ہیں جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے۔