اردو شاعری
میرے مولا کن فرمادے
ایڈووکیٹ صفیہ لاکھو
بستی کے لوگوں کی سسکتی سسکتی آہیں
کسی ماں کی بارش میں ڈوب گئیں دعائیں
کھلے آسمان تلے اک باپ بیٹھا سوچ رہا ہے
کتنے برسوں کی مشقت سے بنایا تھا
اک چھوٹا سا گھروندہ پیار کا
جس کو انتظار تھا آنے والی بہار کا
ایک ننھی بچی اپنی زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ
اپنی سنہری بالوں والی گڑیا کے بہ جانے پہ افسردہ ہے
دور کھڑا ہوا اک بچہ پانی میں بہتے ہوئے
اپنے کتابوں کے بستے کو حسرت سے دیکھ رہا ہے
ہائے کتنی پیاری تھی وہ بستی
جس کی مٹ گئی ہستی
ان سب کی ملی جلی دعا ایک جیسی ہے
میرے مولا کن فرمادے
ماں کی دعا
باپ کا گھروندہ
وہ سنہری بالوں والی گڑیا
اور بچے کے کتابوں کا بستہ لوٹا دے
میرے مولا کن فرمادے