کالمچین

چین کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں کمالات

شاہد افراز خان ، بیجنگ

اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی اور تکنیکی انقلاب کا ہر دور نئے انفراسٹرکچر کو متعارف کرائے گا جبکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا ہر دور معاشی تبدیلی میں بہتری لائے گا۔یہی وجہ ہے کہ چین نے حالیہ برسوں کے دوران نئے انفراسٹرکچر  کی تعمیر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں زبردست مدد ملی ہے۔چین نے انفارمیشن انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کے انضمام اور اختراع کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اقدامات کو بھی تیز کیا ہے۔

Digital infrastructure in China

انہی ٹیکنالوجی دوست پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ گزشتہ دہائی کے دوران چین کے آپٹیکل فائبر نیٹ ورک کی لمبائی میں 2.7 گنا اضافہ ہوا ہے، اور ڈیٹا سینٹر کے ریکس کی تعداد 5.9 ملین تک پہنچ گئی ہے۔سمارٹ ڈیوائسز کو مختلف صنعتوں اور کاروباروں میں ضم کیا جا رہا ہے جیسے کہ ٹرانسپورٹ، توانائی کی فراہمی، اور صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سہولیات جیسے ای کامرس، ٹیلی میڈیسن اور آن لائن تعلیم کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔جدت کے لحاظ سے، چین کے قومی سائنس اور ٹیکنالوجی کے77 بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں میں سے 32 فعال ہو چکے ہیں، جبکہ ملک بھر میں انجینئرنگ ریسرچ، انٹرپرائز ٹیکنالوجی، اور صنعتی اختراع کے مراکز مسلسل قائم کیے جا رہے ہیں۔

یوں نئے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر نے نئی ٹیکنالوجی کی تلاش کے لیے مستقل تعاون فراہم کیا ہے، ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے لیے مؤثر حمایت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو جامع انداز سے آگے بڑھایا ہے  اور چین کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو بہت زیادہ تقویت بخشی ہے۔دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ ملک میں توانائی کا شعبہ بھی ڈیجیٹل، انٹرنیٹ پر مبنی، اور اسمارٹ ٹیک ماڈلز میں تیزی سے منتقل ہو رہا ہے۔اسی باعث اسمارٹ گرڈ، کان کنی، اور بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ توانائی ذخیرہ کرنے جیسے شعبوں میں پیش رفت ہوئی ہے۔حیرت انگیز طور پر چین کے پاور ڈسٹری بیوشن آٹومیشن سسٹم کی کوریج کی شرح 2021 تک 90 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، اور ملک نے 800 سے زیادہ اسمارٹ مائننگ سائٹس اور متعدد” فائیو جی پلس” اسمارٹ تھرمل پاور پلانٹس کی تکمیل دیکھی ہے۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے یہ امر بھی حوصلہ افزاء ہے کہ چین اپنے 14ویں پانچ سالہ منصوبے کی مدت (2021تا2025) کے دوران تقریباً 220 قومی ہائی ٹیک زونز قائم کرے گا، جو ملک کے مشرقی حصے میں پریفیکچر کی سطح کے زیادہ تر شہروں کا احاطہ کرے گا جبکہ مرکزی اور مغربی حصوں میں پریفیکچر کی سطح کے بڑے شہر بھی اس کے دائرہ کار میں آئیں گے۔یہ امر بھی قابل تقلید ہے کہ آج چین کے پاس پہلے ہی 173 قومی ہائی ٹیک زون قائم کیے جا چکے ہیں۔ہائی ٹیک انڈسٹری میں چین کی زبردست ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قومی ہائی ٹیک زونز کی مجموعی پیداواری مالیت 2012 میں 5.4 ٹریلین یوآن (تقریباً 781.3 بلین ڈالر) سے بڑھ کر 2021 میں 15.3 ٹریلین یوآن ہو چکی ہے۔

گزشتہ دہائی کے دوران،ان قومی ہائی ٹیک زونز نے کوانٹم انفارمیشن، تیز رفتار ریلوے، بے دو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم، مقامی طور پر تیار کردہ بڑے ہوائی جہاز اور فائیو جی مواصلات جیسے شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ قومی ہائی ٹیک زونز نے اہم قومی سائنسی اور تکنیکی اہداف کی ایک سیریز میں بھی فعال طور پر اپنا کردار نبھایا ہے  ، جن میں گہرے سمندر میں انسان بردار آبدوز جیاو لونگ کی ترقی، شینزو۔14 خلائی مشن کی کامیاب لانچنگ  اور کووڈ۔19 ویکسین سے متعلق تحقیق اور ترقی شامل ہیں۔گزرتے وقت کے ساتھ چین ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی کوششوں کو بھی عمدگی سے آگے بڑھا رہا ہے تاکہ ٹیکنالوجی سے آراستہ ایک بڑے اور ذمہ دار  ملک کے طور پر نہ صرف اپنی معاشی سماجی ترقی کو آگے بڑھایا جا سکے بلکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں عالمی تعاون کو بھی بھرپور فروغ دیا جا سکے۔

Leave a Reply

Back to top button