شاہد افراز خان ،بیجنگ
عالمی سطح پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس وقت دنیا کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں جن میں کووڈ وبائی صورتحال ،معاشی گراوٹ، مختلف عالمی و علاقائی تنازعات اور بڑھتی ہوئی تقسیم جیسے بڑے مسائل شامل ہیں۔وبا کے بد ترین اثرات کی ہی بات کی جائے تو اس سے دنیا بھر میں نہ صرف انسانی جانوں کا وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں اور صحت عامہ، خوراک کے نظام اور انتظامی نظم و نسق کے لیے ایک غیر معمولی چیلنج پیدا ہوا ہے۔کووڈ۔19 نے یہ ضرور باور کروایا ہے کہ دنیا میں سب کے لیے یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ بنی نوع انسان کا مشترکہ مستقبل ہے، ہر ایک ملک کو دوسرے ملک کا خیال رکھنا ہو گا اور عالمی چیلنجوں کا اجتماعی طور پر مل کر جواب دینا ہو گا۔
دنیا کے وسیع تر مفاد میں ان چیلنجز کے فوری حل کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے اور دنیا کی امیدیں بڑے ممالک سے بھی وابستہ ہیں کہ وہ اس ضمن میں کیا مثبت کردار ادا کرتے ہیں ۔اس نازک لمحے میں عالمی برادری یہ دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ انڈونیشیا میں ہونے والاجی 20سربراہ اجلاس اور تھائی لینڈ میں ایپک اقتصادی رہنماؤں کا اجلاس عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے اور مشترکہ کوششوں کی تجدید میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ایک بڑے ملک کے رہنما کے طور پر چینی صدر شی جن پھنگ ان دونوں اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں اور عالمی مسائل کے حل میں چینی دانش سے دنیا کو مستفید کریں گے۔جی 20 سربراہی اجلاس اور ایپک اقتصادی رہنماؤں کے اجلاس کے موقع پر شی جن پھنگ کی مختلف عالمی رہنماوں سے بھی دوطرفہ ملاقاتیں ہوں گی جس سے یقیناً عالمی مسائل کے حل میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 20 ویں قومی کانگریس کے کامیاب اختتام کے بعد جی 20 بالی سربراہی اجلاس پہلا ایسا کثیر الجہتی سربراہی اجلاس ہے جس میں چینی رہنما شرکت کر رہے ہیں۔ تیز رفتار عالمی تبدیلیوں اور گراوٹ کی شکار عالمی معیشت کے تناظر میں جی 20 سربراہی اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے لیے ایک اہم فورم کے طور پر یہ دنیا میں یکجہتی اور تعاون کو مضبوط بنانے، میکرو اکنامک پالیسیوں کو مربوط کرنے اور عالمی معیشت کی مضبوط، پائیدار، جامع اور متوازن نمو کے لیے مشترکہ اقدامات کو آگے بڑھانے کا ایک موقع بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے انڈونیشیا کی جی 20 صدارت کی حمایت کی ہے۔ چین کی جانب سے یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ جی 20 کے حالیہ اجلاس کے دوران تمام فریق عالمی اقتصادی بحالی کو فروغ دینے اور پائیدار ترقی کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈے پر عمل درآمد پر اتفاق رائے پیدا کرنے اور تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے مل کر کام کریں گے.
اسی طرح رواں سال ایپک کے اقتصادی رہنماؤں کے اجلاس میں صدر شی جن پھنگ کی شرکت ایشیا بحر الکاہل کے بارے میں چینی سربراہ مملکت کی سفارتکاری کا ایک اہم عمل ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین ایشیا بحرالکاہل کے اقتصادی تعاون کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی معیشت میں بڑھتے ہوئی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ایشیا بحر الکاہل میں علاقائی اقتصادی تعاون کو بھی نئے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔اس تناظر میں صدر شی جن پھنگ کی شرکت اور اس اہم فورم سے خطاب کے دوران ایشیا بحر الکاہل تعاون کو گہرا کرنے اور علاقائی اور عالمی معاشی نمو کو فروغ دینے کے بارے میں چین کی اہم تجاویز پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ دنیا کی بھلائی کے لیے "ترقی” کلید ہے ، چین نے نہ صرف غربت کے خاتمے اور ایک مضبوط جدت کاری مہم کے ذریعے اندرون ملک ترقیاتی خلا کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ، بلکہ ایک عالمی ترقیاتی اقدام (جی ڈی آئی) کی بھی تجویز پیش کی ہے ، جس میں ترقی کو فروغ دینے اور ترقیاتی ثمرات بانٹنے کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ ہاتھ ملایا گیا ہے، یہ چین کی جانب سے اشتراکی ترقی کے نظریے کو فروغ دینے کی عملی عکاسی ہے۔