شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ اور اُن کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ملاقات ہوئی ہے جسے عالمی میڈیا میں نمایاں پزیرائی ملی ہے۔یہ ملاقات کئی پہلووں کے اعتبار سے نمایاں اہمیت کی حامل رہی ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں چین اور امریکہ کے رہنماوں کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی جو تین گھنٹے سے زائد تک جاری رہی۔اس دوران دونوں سربراہان مملکت نے جامع، واضح، اسٹریٹجک اور تعمیری تبادلہ خیال کیا اور بات چیت کا دائرہ بھی قدرے وسیع رہا .دونوں صدور نے اپنی اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں، چین امریکہ تعلقات، امور تائیوان، مختلف شعبوں میں تعاون اور اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر مفصل گفتگو کی۔صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں کھلی اور شفاف ہیں، جو اعلی درجے کے تسلسل اور استحکام کی حامل ہیں۔ چین اور امریکہ کے تعلقات میں زیرو سم گیم کی ذہنیت کو ترک کرنا چاہئے ، اور 21 ویں صدی میں دنیا کو "سرد جنگ” کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہئے۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں اور اسٹریٹجک معاملات کو درست انداز میں سمجھنا چاہیے اور محاذ آرائی کے بجائے مکالمہ کرنا چاہیے ۔صدر شی نے کہا کہ آزادی،جمہوریت اور انسانی حقوق انسانیت کی مشترکہ جستجو ہے ۔ امریکہ اور چین کی اپنی اپنی طرز کی جمہوریت ہے جو اپنی اپنی صورتحال سے مطابقت رکھتی ہے۔فریقین کے درمیان اختلافات کے حوالے سے مساوات کی بنیاد پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ چین اور امریکہ مختلف تاریخی ثقافت،سماجی نظام اور ترقیاتی راستے کے حامل دو بڑے ملک ہیں ،فرق اور اختلافات ضرور موجود ہیں ،لیکن انھیں باہمی تعلقات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے۔صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ چین کے نظام کا احترام کرتا ہے، چین کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی کسی "نئی سرد جنگ” کا خواہاں ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ چین کے خلاف اتحاد کو مضبوط کرنے اور چین کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
وسیع تناظر میں چین امریکہ تعلقات کی ترقی کی سمت کے بارے میں اس سربراہ ملاقات میں ایک واضح سمت طے کی گئی ہے کہ دونوں بڑے ممالک کے تعلقات کو بگڑنے سے روکا جائے اور دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان درست انداز میں بقائِے باہمی کا راستہ تلاش کیا جائے۔ یہ پہلو بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ فریقین کے درمیان تعلقات کے ایک فریم ورک کی وضاحت کی جائے، یعنیٰ مشترکہ طور پر چین امریکہ تعلقات کے لیے رہنما اصولوں پر مبنی اسٹریٹجک فریم ورک قائم کیا جائے۔ فریقین متفق نظر آئے کہ دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے پر عمل درآمد کیا جائے اور چین امریکہ تعلقات کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔دونوں بڑی طاقتوں کو ایک ساتھ مل کر اس بدلتی دنیا میں استحکام اور یقین پیدا کرنا ہوگا۔تائیوان کے امور کا ذکر کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین "پرامن وحدت اور ایک ملک، دو نظام” کے بنیادی اصول پر عمل کرے گا اور انتہائی خلوص کے ساتھ پرامن وحدت کے امکان کے لئے کوشش کرے گا۔ تائیوان کے امور چین کے بنیادی مفادات کا مرکز اور چین امریکہ سیاسی تعلقات کی بنیاد ہے، انہوں نے واضح کیا کہ یہ وہ سرخ لکیر ہے جسے امریکہ عبور نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے اس کی کوشش کرنا چاہیے۔ صدر بائیڈن نے بھی واضح کر دیا کہ امریکہ ایک چین کی پالیسی پر کاربند ہے، "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی امور تائیوان کو چین کو روکنے کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔اقتصادی اور تجارتی مسائل پر صدر شی نے نشاندہی کی کہ چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات باہمی مفاد پر مبنی ہیں۔ تجارت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں محاز آرائی، زبردستی رکاوٹیں کھڑی کرنا اور "ڈی کپلنگ” کو فروغ دینا معیشت کے اصولوں کی نفی اور بین الاقوامی تجارتی قوانین کے خلاف ہے جو تمام فریقوں کو نقصان پہنچائے گا ۔
علاوہ ازیں اس اہم ملاقات کے دوران دونوں سربراہان مملکت نے یوکرین کے مسئلے اور جزیرہ نما کوریا کے جوہری مسئلے سمیت بین الاقوامی اور علاقائی امور پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔دونوں سربراہان مملکت نے باقاعدہ رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور ساتھ ہی سفارتی اور سلامتی ٹیموں کو اسٹریٹجک رابطے جاری رکھنے، ان کے درمیان زیر بحث اہم امور اور طے پانے والے اتفاق رائے پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔ امریکی فریق کی جانب سے کہا گیا کہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن دورہ چین کے جلد منتظر ہیں تاکہ سربراہی ملاقات کے بعد تعاون کو آگے بڑھایا جاسکے۔اس وقت دنیا کو درپیش کووڈ وبائی صورتحال ، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی و علاقائی تنازعات کے تناظر میں شی۔ بائیڈن ملاقات کو اہم سمجھا جا رہا ہے اور دنیا کی امیدیں بھی چین اور امریکہ جیسے بڑے ممالک سے وابستہ ہیں کہ وہ آپسی اختلافات سے بہتر طور پر نمٹتے ہوئے انسانیت کو درپیش سنگین چیلنجز کے حل میں معاون ،مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں گے۔