کالمچین

چین اور ترقیاتی ثمرات کا عملی اشتراک

شاہد افراز خان ،بیجنگ

تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں ابھی حال ہی میں ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) کے اقتصادی رہنماؤں کا 29 واں اجلاس منعقد ہوا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ کووڈ 19 وبائی صورتحال کی وجہ سے 2020 میں ملائیشیا اور 2021 میں نیوزی لینڈ کی جانب سے ایپک اجلاسوں کی ورچوئل میزبانی کی گئی تھی۔ رواں برس کے اجلاس میں ایپک ممالک کے رہنماء ذاتی طور پر شریک ہوئے ہیں۔اس سال  ایپک اجلاس کا موضوع "کھلا، مربوط اور متوازن” رہا۔ اس تھیم کی مناسبت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایپک رہنماء ہر قسم کے ترقیاتی مواقع کو کھولنے، ترقیاتی ثمرات کو دنیا بھر سے منسلک کرنے اور تمام پہلوؤں میں توازن قائم کرنے کے لئے عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کریں گے.

ایپک میں دنیا کی 21  معیشتیں شامل ہیں جن کی مشترکہ آبادی 2.9 بلین سے زائد ہے ۔ایپک ممالک کا دنیا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں شیئر  60 فیصد سے زیادہ اور  مجموعی عالمی تجارت میں تقریباً نصف شیئر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایپک ممالک تجارت اور سرمایہ کاری کی آزادی، کاروباری سہولیات کی فراہمی اور اقتصادی اور تکنیکی تعاون جیسے شعبوں پر کام کر رہے ہیں، جن کا مقصد ایشیا بحر الکاہل خطے میں پائیدار ترقی اور خوشحالی حاصل کرنا ہے۔ ایپک کے ادارہ جاتی فریم ورک میں اقتصادی رہنماؤں کا اجلاس ، وزارتی اجلاس ، سینئر عہدیداروں کا اجلاس ، کمیٹیاں اور ورکنگ گروپ شامل ہیں۔اہم رکن ممالک میں چین سمیت آسٹریلیا، برونائی، کینیڈا، چلی، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، میکسیکو، نیوزی لینڈ، پاپوا نیو گنی، پیرو، فلپائن، روس، سنگاپور، تھائی لینڈ، امریکہ اور ویتنام شامل ہیں۔مبصرین میں آسیان سیکریٹریٹ، بحر الکاہل اقتصادی تعاون کونسل اور بحر الکاہل جزائر فورم شامل ہیں۔

تاریخی اعتبار سے ایشیا بحرالکاہل میں پائیدار اقتصادی نمو اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک فورم کے قیام کا تصور سب سے پہلے 1989 میں آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم باب ہاک نے خطے کے بڑھتے ہوئے باہمی انحصار اور دنیا کے دیگر حصوں میں علاقائی تجارتی بلاکس کے جواب میں پیش کیا تھا۔پہلا ایپک وزارتی اجلاس اسی سال کے آخر میں آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں منعقد ہوا تھا ، جس نے میکانزم کے باضابطہ قیام کی نشاندہی کی تھی۔نومبر 1991 میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ایپک کا تیسرا وزارتی اجلاس منعقد ہوا جس میں  "سیول ایپک اعلامیہ” کی منظوری دی گئی۔اس دستاویز کے تحت ایپک کے حتمی مقاصد کا تعین کیا گیا جن میں ایک کھلے کثیر الجہتی تجارتی نظام کی تعمیر و مضبوطی  اور مصنوعات کی تجارت ،خدمات اور سرمایہ کاری کے حوالے سے رکاوٹوں میں کمی  شامل تھیں۔ سنگاپور میں قائم ایپک سیکریٹریٹ 1993 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ مختلف سطحوں پر فورم کی سرگرمیوں کے لئے معاونت اور خدمات فراہم کی جاسکیں۔

ایپک اقتصادی رہنماوں کا اجلاس ادارہ جاتی فریم ورک کے تحت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہے۔ سنہ 1993 میں امریکہ کے شہر سیئٹل میں منعقدہ پہلے غیر رسمی اجلاس کے بعد سے اقتصادی رہنماؤں کا اجلاس سالانہ بنیادوں پر منعقد ہوتا رہا ہے۔ سنہ 1994 میں انڈونیشیا میں منعقدہ اجلاس میں  ایپک اقتصادی رہنماوں کا "مشترکہ حل”  اعلامیہ منظور کیا گیا۔ اعلامیے میں ایپک کی جانب سے 2010 تک صنعتی معیشتوں اور 2020 تک ترقی پذیر معیشتوں کے لیے آزاد، کھلی تجارت اور سرمایہ کاری کے حصول کا وعدہ کیا گیا ۔اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے 2020 میں ملائیشیا میں منعقدہ اجلاس میں "پتراجایا وژن 2040” کی منظوری دی گئی جو اس تصور کو پروان چڑھاتا ہے کہ تمام افراد اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لئے 2040 تک ایک کھلی ، متحرک ، لچکدار اور پرامن ایشیا بحر الکاہل کمیونٹی تعمیر کی جائے۔

چین نے31  سال قبل ایپک میں شمولیت اختیار کی تھی اور اُس کے بعد سے وہ علاقائی شراکت داریوں، آزاد تجارت و سرمایہ کاری کے لیے ہمیشہ پرعزم رہا ہے اور کثیر الجہتی تجارتی نظام اور کھلی عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے رواں سال اس اہم اجلاس میں شرکت کی اور اہم خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی انصاف کو برقرار رکھنے اور ایک پرامن اور مستحکم ایشیا پیسفک کی تعمیر کی تجویز پیش کی۔ شی جن پھنگ نے تمام فریقوں سے ایشیا پیسیفک ہم نصیب معاشرے کے قیام کی اپیل کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ چند دہائیوں میں ایشیا پیسیفک خطے  کی تیز رفتار ترقی نے پرامن اور مستحکم ماحول سے فائدہ اٹھایا ہے۔شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں کھلے پن اور جامعیت پر قائم رہتے ہوئے اور مشترکہ خوشحالی کے ساتھ ایشیا پیسیفک کی تعمیر کرنا چاہیے،جلد از جلد ایک اعلیٰ سطحی ایشیا پیسفک آزاد تجارتی علاقہ بنانا چاہیے۔چین آئندہ برس،  تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ عالمی تعاون فورم کی میزبانی پر غور کر رہا ہے تاکہ ایشیا پیسیفک اور دنیا کی ترقی اورخوشحالی میں نئی تحریک پیدا کی جا سکے۔انہوں نے سرسبز اور کم کاربن پر مبنی ترقی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک صاف اور خوبصورت ایشیا پیسیفک خطے کی تعمیر پر زور دیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہمی اعتماد ، اشتراک، تعاون اور جیت جیت کے اصول پر قائم ایشیا پیسیفک شراکت داری کو مسلسل فروغ دیا جائے۔شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام ،مساوات اور باہمی مفادات کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ ترقی کا خواہاں ہے۔چین ، چینی طرز کی جدیدیت پر گامزن رہے گا اور دنیا کے ساتھ چین کی ترقیاتی مواقع کا شتراک جاری رکھے گا۔

اس تناظر میں چین کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو وہ گزشتہ سال آر سی ای پی معاہدے کی توثیق کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہےاور مزید علاقائی اقتصادی انضمام کے لئے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ اور ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ ایگریمنٹ  کے لئے جامع اور ترقی پسند معاہدے میں شمولیت کی کوشش کر رہا ہے.کھلے پن کے حوالے سے چین کے عملی اقدامات کو دیکھا جائے تو رواں ماہ کے اوائل میں شنگھائی میں پانچویں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کا انعقاد اعلیٰ معیار کے کھلے پن کی عملی شکل ہے جس کے زبردست نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ درآمدی تھیم پر مبنی ایونٹ کے دوران مجموعی طور پر 73.5 بلین امریکی ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں ، جو چین کی بہت بڑی مارکیٹ اور متعدد کاروباری مواقع کا ثبوت ہے۔یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اپنے وسیع معاشی حجم کے ساتھ ،چین ایشیا بحر الکاہل میں ترقی کے لئے ایک حقیقی محرک ثابت ہو گا اور موجودہ ایپک اجلاس کو ایک موقع کے طور پر لیتے ہوئے علاقائی اقتصادی انضمام کو مزید فروغ ملے گا جو وبا سے متاثرہ عالمی معیشت کے لیے ایک "آکسیجن” کی مانند ہے۔

Leave a Reply

Back to top button