بلاگ

مس فٹ

بابرشیراز

رات گئے، رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا صرف یہی کہتا رہا کہ وہ چور نہیں ………
وہ فروٹ کی ریڑھی پر چڑھائے گے غلاف نما ترپال کو بلیڈ کی مدد سے کاٹ کر ، سیب کھا بھی رہا تھا اور جیب میں بھی ڈال رہا تھا۔ ہمارے پہنچنے پر ایسے دُبک گیا جیسے کبوتر ……….میرے ساتھ میرے رحم دل افسر نے موقع پر ہی سرکاری سلام دعا شروع کردی………. میں نے بمشکل بیچ بچاؤ کرایا اور اپنے افسر کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
"وہ” ریڑھی کے پاس زمین پر پڑا رو رہا تھا ، اُس کی عمر ابھی ووٹ دینے کی عمر سے بہت کم تھی………..میں نے اُس کے ہاتھوں میں آہنی کنگن پہناتے ہوئے پوچھا …….” تم چور ہو ۔ چوری کر رہے تھے۔ اور یہ کام تم کتنے عرصے سے کر رہے ہو۔” میرے یکلخت کئی سوال کرنے پر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور درد سے کراہتے ہوئے بولا:
” ماما ہم چور نئیں اے۔”
اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بوجھل دل سے میں نے اس سے پھر پوچھا:
” تم چور نہیں ہو تو یہ کام کیوں کیا؟
اُس کی آنکھیں اور اُسکی زبان ………..ایک ساتھ بولنے لگے:
” ماما ہم چور نئیں اے ، ہم بھوکا اے۔”
…………….میرے ہاتھ کانپ گئے ۔بقول شاعر ارض وسماوات کانپ گئے………. میں نے ہتھکڑی کھول دی ………اور وردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اتنی زور سے چیخ ماروں کہ میری آواز عرش تک جائے……… مگر چیخ کی آواز میرے اندر ہی کہیں رہ گئی ہاں ایک سسکاری منہ بسورتے ہوئے نکل گئی۔ میرے افسر نے ،جو مکمل افسر تھا ، مجھے قانون اور سینئر جونئیر کی رام کہانی سنانے کی کوشش کی مگر اُس وقت میری آنکھوں کی لالی نے اُسے باور کرا دیا کہ اُس کا خاموش رہنا ہی اُس کے لئے بہتر رہے گا ، اور شکر ہوا کہ افسر صاحب کا بلڈ پریشر جلدی برابر ہو گیا۔
میں نے "چور” کو اپنے ساتھ بٹھایا اور رات بھر کھلے رہنے والے ٹرک ہوٹل پر اُس کا رازق بنا……… اُس نے کھانا کھایا اور ہم نے چائے پی ۔ میرا افسر ابھی بھی قانون کی دفعات سنا رہا تھا………. کھانے وغیرہ کا بل دینے کے بعد………. جو میرے پاس تھا اُس” چور” کو دیکر رخصت کیا۔
اس رات میرے افسر نے مجھ سے کوئی بات نہ کی، صبح ہوئی ……..میرے افسر نے میرے خلاف بہترین انشاء میں میری نوکری کی پہلی اسپیشل رپورٹ تیار کی………..یہ رپورٹ جس میں لکھا گیا کہ مذکورہ ماتحت محکمہ ہذا کے لئے ہرگز فٹ نہ ہے ،محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔۔۔۔۔۔ ایسی بہت ساری رپوٹس کے تمغے آج بھی میرے سینے کا فخر ہیں ۔ ایسی رپورٹس کو سچے صاحب نے اوپر نیچے ہمیشہ رد ہی کیا ہے۔

Leave a Reply

Back to top button