شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس وقت قطر میں فٹبال ورلڈکپ جاری ہے جس میں دنیا کی ٹاپ ٹیمیں ٹائٹل کے حصول کے لیے مدمقابل ہیں۔شائقین سے بھرے فٹبال اسٹیڈیم دیکھ کر ہر گز یہ گمان نہیں ہوتا کہ آج بھی دنیا کو کووڈ۔19 کی وبائی صورتحال کا سامنا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا ادراک ناگزیر ہے کیونکہ ڈبلیو ایچ او واضح کر چکا ہے کہ وبائی صورتحال کے ہنگامی مرحلے کے خاتمے کا اعلان ابھی قبل از وقت ہے۔عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کی کم از کم 90 فیصد آبادی انفیکشن یا ویکسی نیشن کی وجہ سے وائرس کے خلاف کسی حد تک قوت مدافعت رکھتی ہے ، لیکن وائرس کی مانیٹرنگ، ٹیسٹنگ اور ویکسی نیشن میں بدستور خلیج موجود ہے جس کے باعث وبا کے حوالے سے ایمرجنسی اٹھانے کا حتمی مرحلہ ابھی تک نہیں آیا ہے ۔
وبائی صورتحال کے تناظر میں دنیا کے بے شمار ممالک میں "کووڈ کے ساتھ جینے” کی پالیسی اپنائی جا چکی ہے جس کی نمایاں وجوہات میں معاشی ابتری ،ناکافی طبی وسائل اور نظام زندگی میں خلل وغیرہ شامل ہیں ۔دوسری جانب چین بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں اپنے انسداد وبا اقدامات کو مسلسل اپ گریڈ کر رہا ہے جن کی بنیاد سائنسی اصول اور عوام کو مقدم رکھنا ہے۔کورونا وائرس کیسز میں اضافے کے پیش نظر چین نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کی صحت کے تحفظ کے لیے اپنے پختہ عزم کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ معاشی اور سماجی ترقی پر کووڈ 19 کے اثرات کو کم سے کم کرتے ہوئے اپنے وبائی ردعمل کو بہتر بنایا ہے۔چینی حکام کی جانب سے اومیکرون ویریئنٹ کے پھیلاو کو روکنے ، ویکسی نیشن کو مزید بڑھانے ، اور وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے حوالے سے مسلسل نئے "اپ گریڈ” اقدامات اپنائے جا رہے ہیں۔اس حوالے سے ابھی حال ہی میں خطرے والے علاقے کے تعین اور انتظام ، نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹنگ ، آئیسولیشن کے طریقوں ، طبی علاج اور ادویات کی خریداری ، بزرگوں کی ویکسی نیشن سمیت دس اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں ۔ ان اقدامات کا مقصد وبا کی روک تھام اور کنٹرول کی سائنسی درستگی کو مسلسل بہتر بنانا ہے ۔ اب نرسنگ ہومز، ویلفیئر ہومز، طبی اداروں، بچوں کی دیکھ بھال کے اداروں، پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں جیسے خصوصی مقامات کے علاوہ، تمام عوامی مقامات بشمول پارکس ،شاپنگ مالز وغیرہ میں داخلے کے لیے منفی نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسی طرح بغیر علامات والے افراد اور ہلکی علامات والے افراد اپنے گھروں میں ہی قرنطینہ کر سکیں گے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ پچھلے تین سالوں میں، چین نے وبا کی روک تھام اور کنٹرول ,تشخیص اور علاج کے منصوبوں کے یکے بعد دیگرے نو ایڈیشن جاری کیے ہیں، اور 20 اصلاحی اقدامات متعارف کروائے ہیں۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ وائرس کے پھیلاو کو محدود کر دیا گیا جس کے باعث وائرس کے مہلک پن میں کمی آئی۔ لوگوں کو آج وائرس کے خطرات کا سامنا انتہائی کم ہے اور ان کی زندگیاں پہلے سے کہیں زیادہ زیادہ محفوظ ہو چکی ہیں۔دوسرا ، ملک میں ادویات بکثرت دستیاب ہیں۔چین میں گزشتہ تین سالہ تجربے اور تحقیق کے بعد، آج کئی ادویات وائرس کے خلاف کارگر ہیں، اس لیے لوگ انفیکشن کا شکارہونے کے باوجود بھی خوفزدہ نہیں ہوتے۔تیسرا پہلو ویکسی نیشن کا بھی ہے ، پچھلے تین سالوں میں چین بھر میں ویکسی نیشن کے عمل کو انتہائی فروغ دیا گیا ہے جس نے وائرس کے خلاف ایک "حفاظتی ڈھال ” کا کردار ادا کیا ہے اور وائرس کے نقصان کو کم کیا گیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وبا کے خلاف چین کی تین سالہ جنگ نے کروڑوں انفیکشن اور لاکھوں اموات کو روکا ہے اور لوگوں کے دل جیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نے بھی اسے بڑے پیمانے پر سراہا ہے۔ یوں ملک میں وبا سے بچاؤ اور کنٹرول کا ہنگامی طریقہ کار مضبوط ہو گیا ہے۔علاوہ ازیں ، انسداد وبا اور صحت سے متعلق عوام میں مزید شعور اجاگر کیا گیا ہے ۔
درحقیقت، چین کی جانب سے وائرس میں رونما ہونے والے تغیرات پر نمایاں توجہ دی گئی ہے ۔ روک تھام اور کنٹرول کے بنیادی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں صحت عامہ کے تحفظ اوراقتصادی ترقی سے متعلق حکمت عملیوں کو مسلسل مربوط کیا گیا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ چین نےوبا کے خلاف تین سال تک مسلسل جنگ میں لاتعداد تزویراتی نتائج حاصل کیے ہیں،جس کا سہرا یقینی طور پر چینی صدر شی جن پھنگ ، سی پی سی کی مرکزی کمیٹی اور ریاستی کونسل کی مضبوط قیادت کو جاتا ہے ۔اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہاں بڑی تعداد میں کمزور گروہ جیسے بزرگ افراد، دائمی امراض سمیت کینسر جیسے خطرناک امراض میں مبتلا افراد موجود ہیں۔انسداد وبا اقدامات کو ایڈجسٹ کرتے وقت ان عوامل کو مد نظرر رکھا گیا ہے جس کی بنیاد پر ہی نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔مجموعی طور پر دنیا میں اس وقت کورونا وائرس کے 641 ملین سے زیادہ مصدقہ کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ اموات بھی 6۔62 ملین سے زیادہ ہیں۔ایسے میں دنیا کے بڑے ممالک میں چین اس وقت وہ واحد ملک ہے جہاں متاثرہ افراد اور اموات کی شرح سب سے کم ہے۔دوسری جانب چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بھی ہے اوروبا کے تناظر میں چین کی اقتصادی ترقی نے دنیا کو کبھی بھی مایوس نہیں کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب وبا کے باعث دوسرے ممالک کی معیشتیں منفی نمو کا سامنا کر رہی ہیں، چین 2020 میں مثبت اقتصادی نمو کی حامل دنیا کی پہلی بڑی معیشت رہا ہے. اس کے علاوہ، 2021 میں، چین کی معیشت کا پیمانہ 110 ٹریلین یوآن سے تجاوز کر چکا ہے اور گزشتہ دو سالوں میں معاشی ترقی کی شرح اوسطاً 5.1 فیصد رہی ہے.کمزور عالمی اقتصادی ترقی کے پس منظر میں، چینی معیشت اور چینی مارکیٹ کی کشش اور لچک مزید ابھر کر سامنے آئی ہے۔ بلومبرگ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی چینی منڈی کی مضبوطی سے متعلق کہا کہ دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں میں تیزی سے گراوٹ کے باوجود "چین ایک پرکشش گھریلو طلب پر مبنی بحالی کا باب رقم کر سکتا ہے۔”بلومبرگ کے مطابق آئندہ سال عالمی معیشت مالیاتی بحران کے بعد 2009 کی مانند کمزور ہو جائے گی، لیکن "عالمی اقتصادی ترقی کا سب سے بڑا محرک چین ہوگا، جو وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے اقدامات کو مسلسل اپ گریڈ کر رہا ہے۔توقع کی جا سکتی ہے کہ چین کی معیشت جو انتہائی لچکدار ہے، عالمی اقتصادی ترقی کے لیے ایک محرک ثابت ہو گی اور عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کو رواں دواں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔