شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین نے وبائی صورتحال اور انسداد وبا کوششوں کو معاشی اور معاشرتی ترقی کے ساتھ بہتر طور پر ہم آہنگ کرتے ہوئے ترمیم شدہ اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔یہ ایڈجسٹمنٹ چینی اور عالمی معیشتوں دونوں کو ایک بہت ضروری” بوسٹر شاٹ” دے گی.کہا جا سکتا ہے کہ کووڈ وبا کے خلاف چین کی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔آج چین تین سال تک وبا سے سختی سے نمٹنے کے بعد لوگوں کی زندگیوں کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کوششوں کے تحت ہلکی علامات والے مریضوں کو گھروں پر قرنطینہ کرنے کی اجازت ہے اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر پبلک مقامات پر منفی ٹیسٹ کے نتائج دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ٹریول پلیٹ فارمز سے پتہ چلتا ہے کہ نئے اقدامات کے اجراء کے بعد چین کے سانیا اور ہاربن جیسے سیاحتی مقامات کے لئے ہوائی ٹکٹوں کی تلاش میں سات گنا اضافہ ہوا ، بہت سے لوگ جنوری میں جشن بہار کی تعطیلات کے آس پاس سفر کرنے کے خواہاں ہیں۔ریستوران کھانے کے لئے دوبارہ کھل رہے ہیں. ملک کے 70 فیصد سے زائد سینما گھروں نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ جیمز کیمرون کی بلاک بسٹر فلم "اوتار: دی وے آف واٹر” کی ایڈوانس ٹکٹیں بُک ہو چکی ہیں جبکہ یہ فلم دسمبر کے وسط سے چین کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
درحقیقت،چین کے حالیہ اقدامات اُسی نقطہ نظر کی ایک کڑی ہیں جس کے تحت وبائی صورتحال کے آغاز سے ہی ، لوگوں اور ان کی زندگیوں کو ہر چیز سے بالاتر رکھا گیا ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین نےتین سال تک تمام بڑے ممالک میں انفیکشن اور اموات کی شرح سب سے کم رکھی ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں کووڈ انفیکشن کی شرح فی ملین افراد میں 2,883 ہے جبکہ امریکہ میں یہ 299,595 فی ملین ہے۔ چین میں اموات کی شرح 11 فی ملین افراد اور امریکہ میں 3,267 فی ملین ہے۔
وبائی صورتحال کے دوران متوقع عمر میں اضافہ بھی چین کی انسداد کووڈ پالیسیوں کی کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران، چین میں اوسطاً 0.63 سال عمر میں اضافہ ہوا ہے،ملک میں شہریوں کی عمر 2020 میں 77.93 سال سے 2021 میں 78.2 سال تک ہو چکی ہے. حقائق کی روشنی میں اگر چین انسداد وبا کے اپنے اقدامات پر عمل پیرا نہ ہوتا تو اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا اور لاکھوں اموات ہوتیں ۔فیصلہ کن اور ذمہ دارانہ انسداد کووڈ اقدامات نے چین کو اپنے لوگوں کو وائرس سے نمٹنے اور لازمی تیاری کرنے کے لئے ایک قیمتی وقت اور مہلت فراہم کی۔ وبائی صورتحال اور وائرس پر قابو پانے کے دوران ، چین نے پھیلتے ہوئے وائرس کے خلاف ایک مضبوط ڈھال قائم کی اور اسے تقویت بخشی۔ صرف 2021 میں، چین نے اضافی 8 ہزار سے زائد طبی ادارے قائم کیے، ہسپتالوں کے بستروں کی تعداد میں 3 لاکھ 48 ہزار کا اضافہ کیا اور 5 لاکھ 08 ہزارہیلتھ کارکنوں کو تربیت دی.
ملکی سطح پر کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے ، چین وبا کے خلاف عالمی جنگ کے لئے اپنے عزم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔عالمی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے چین نے 153 ممالک اور 15 بین الاقوامی تنظیموں کو انسداد وبا کا سامان فراہم کیا، 34 ممالک میں طبی ماہرین کے گروپ بھیجے، 180 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ وبائی صورتحال سے نمٹنے کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا اور 120 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو کووڈ 19 ویکسین کی 2.2 ارب سے زائد خوراکیں فراہم کیں۔عالمی صنعتی اور رسدی چینز کو مستحکم کرنے کے لئے، چین اپنی وسیع ترین مارکیٹ کا اشتراک کر رہا ہے اور دنیا کے لئے صنعتی سامان اور صارفین کی مصنوعات کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے. 2020 میں، چین واحد بڑی معیشت تھی جس نے مثبت اقتصادی نمو دکھائی اور گزشتہ سال، چین نے عالمی اقتصادی ترقی میں 25 فیصد سے زیادہ حصہ لیا.
آج تین سال بعد،چین طبی نظام کو مضبوط بناتے ہوئے نئے ویرینٹس پر قابو پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ملک کی90 فیصد آبادی ویکسین سے لیس ہے، چین وائرس کا مقابلہ کرنے اور وبائی صوتحال کی دلدل سے باہر نکلنے کے لئے بہتر پوزیشن میں ہے. تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ چین کووڈ 19 کے سائے کو توقع سے کہیں زیادہ جلد پیچھے چھوڑ دے گا۔ چین کے اقتصادی آؤٹ لک پر ایک حالیہ رپورٹ میں، مورگن اسٹینلے نے پیش گوئی کی ہے کہ چین 2023 کے وسط سے معاشی ٹریک پر واپس لوٹ آئے گا اور سال میں 5 فیصد کی شرح سے ترقی حاصل کرے گا.یوں عالمی معاشی بحالی کے سب سے بڑے انجن کے طور پر، چین ایک متزلزل عالمی معیشت کو مزید اعتماد فراہم کرے گا۔چین کے انسداد کووڈ اقدامات کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد ، عالمی منڈیوں کو بھی زبردست پیغام ملا ہے ۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سمیت بڑی بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان نے چین کی تعریف کی اور توقع ظاہر کی کہ ایک متحرک اور لچکدار چینی معیشت بین الاقوامی سپلائی چینز کو فروغ دینے اور عالمی نمو کو متحرک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی ، جو چین کے عالمی کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔