کالم

جنگلی حیات کا تحفظ، ایک سماجی ذمہ داری

شاہد افراز خان بیجنگ

جنگلی حیات

حیاتیاتی تنوع انسانی بقا کی ایک شرط ، پائیدار معاشی و سماجی ترقی کی بنیاد اورحیاتیاتی و غذائی تحفظ کی ضمانت ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سبھی ممالک کی کوشش ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے شعبے کو ترقی دی جائے ۔وسیع تناظر میں چین بیش بہا حیاتیاتی انواع کے حامل ممالک میں سے ایک ہے اور اپنی اس اہم ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے حیاتیاتی تنوع کنونشن پر دستخط کرنے والے اولین ممالک میں بھی شامل ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے چین نے اسے اپنی ” قومی حکمت عملی” قرار دیا ہے۔اس ضمن میں حیاتیات  کے فطری مساکن اور باغات میں تحفظ کے لیےسائنسی تحقیقات ،متعلقہ قوانین و پالیسیاں تشکیل دینے اور معاشرے میں آگاہی سمیت دیگر اقدامات اور سلسلہ وار اہم فیصلے کیے جاتے ہیں ۔

اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چین نے وائلڈ لائف کے تحفظ سے متعلق نظرثانی شدہ قانون کی منظوری دی ہے ، جو یکم مئی  2023 سے نافذ العمل ہوگا۔اس قانون کا بغور جائزہ لیا جائے تو بہت سارے ایسے پہلو ہیں جن پر ہم ترقی پزیر ممالک کے لوگ عموماً سوچتے تو ضرور ہیں یا پھر چاہتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے مگر عمل درآمد میں مسائل درپیش آتے ہیں۔چین کا یہ قانون جنگلی حیات کے مساکن کے تحفظ کو مضبوط بناتا ہے اور جنگلی حیات کی آبادی کو مستقل بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے  لازمی اقدامات کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے۔

اس قانون میں واضح کر دیا گیا ہے کہ جنگلی حیات کو خصوصی ریاستی تحفظ کا درجہ حاصل ہو گا ۔ ساتھ ساتھ ماحولیاتی ، سائنسی اور معاشرتی اقدار کی روشنی میں جنگلی حیات کا قومی سطح پر تحفظ کیا جائے گا اور ان کی بقا کو درپیش خطرات کا تدارک کیا جائے گا ۔اس ضمن میں تجارتی مقاصد یا پھر کسی غیر قانونی سرگرمی  کے لیے جنگلی جانوروں کے شکار، تجارت یا نقل و حمل کی سختی سے ممانعت ہوگی. یہ قانون متعلقہ جرائم کے حوالے سے سزاؤں کا تعین بھی کرتا ہے جو یقیناً جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایک اہم محرک ہے ۔

یہ امر قابل زکر ہے کہ چین میں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق موجودہ قانون 1988 میں تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس میں تین ترامیم اور ایک مرتبہ نظر ثانی کی گئی ہے۔اس قانون کی بدولت ملک میں جنگلی جانوروں اور ان کی رہائش گاہوں کے تحفظ کو تیز کرنے اور خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے بچاؤ اور افزائش نسل کو مضبوط بنانے میں نمایاں مدد ملی ہے ۔ چین کی فطرت سے محبت کی ان کوششوں نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ملک میں ماحولیاتی تحفظ کو آگے بڑھانے میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔آج ملک میں جنگلی حیات کی آبادی مؤثر طریقے سے بحال ہو چکی ہے کیونکہ قدرتی ماحول مسلسل بہتر ہو رہا ہے ، ملک بھر میں جنگلی حیات کے مساکن پھیل رہے ہیں اور معدومیت کے خطر ے سے دوچار جانوروں سمیت دیگر جنگلی حیات کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔مثال کے طور پر، جائنٹ پانڈا کی آبادی گزشتہ 40 سالوں میں 11 سو سے بڑھ کر 18 سو سے زائد ہوچکی ہے ، کرسٹڈ آئبس کی تعداد محض سات سے بڑھ کر 05 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔دوسری جانب یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں جنگلی حیات کی تعداد کافی زیادہ ہے اور اُن کا غلبہ ہے ، جس سے لوگوں کی حفاظت اور زرعی اور مویشی پروری کی پیداوار کے لئے ممکنہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔اس کے جواب میں نظر ثانی شدہ قانون میں ایسی جنگلی حیات کی آبادی کو ریگولیٹ کرنے اور کنٹرول کرنے کے تفصیلی اقدامات کا تعین کیا گیا ہے جو ماحولیاتی صلاحیت سے تجاوز کر چکی ہیں۔علاوہ ازیں یہ قانون جنگلی جانوروں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے لئے قومی سبسڈی سمیت مختلف انواع کی مصنوعی طور پر افزائش کے حوالے سے بھی انتظامات اور شرائط کا تعین بھی کرتا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ چین قانون سازی جیسے عملی اقدامات کی مدد سے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ دنیا میں بھی حیاتیاتی تنوع بالخصوص جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا مثبت کردار  جاری رکھے گا  اور انسانیت اور فطرت کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینے کےلیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کوشش کرتا رہے گا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے قیمتی قدرتی اثاثہ محفوظ کیا جا سکے ۔

Leave a Reply

Back to top button