چینکالم

چین میں خوش آمدید ، قرنطینہ کی سفری پابندی ختم

شاہد افراز خان ،بیجنگ

قرنطینہ کی سفری پابندی

بالآخر تین سالہ طویل انتظار کے بعد اتوار کو  چین میں بین الاقوامی مسافروں کی آمد ورفت  "نو  قرنطینہ” پالیسی کے تحت بحال ہو چکی ہے۔ملک میں قرنطینہ کی پالیسی منسوخ کیے جانے کے بعد پہلی پروازیں اتوار کی صبح جنوبی صوبہ گوانگ دونگ کے شہروں گوانگ جو اور شینزین کے ہوائی اڈوں پر اتریں۔ ٹورنٹو اور سنگاپور سے آنے والی دو پروازوں میں 387 مسافر سوار تھے ، انہیں وہ خوش قسمت مسافر کہا جا سکتا ہے جو چین کی جانب سے بین الاقوامی آمد ورفت کے لئے کووڈ 19 کی سخت پابندیوں بشمول قرنطینہ ، کے خاتمے کے بعد ملک میں داخل ہونے والے اولین افراد ہیں۔ چین نے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ کووڈ 19 کی اُن پابندیوں کو ختم کر رہا ہے جن کے تحت بین الاقوامی مسافروں کو نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹ اور قرنطینہ کے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اب چین کی جانب سفرکرنے والےمسافروں کو آمد کے بعد ایک تو قرنطینہ کی ضرورت نہیں ہے اور دوسرا  روانگی سے قبل 48 گھنٹوں کے اندر اندر انہیں صرف پی سی آر ٹیسٹ کا منفی نتیجہ پیش کرنے کی ضرورت ہے  ،انہیں اب چینی سفارتی اور قونصلر مشنوں سے ہیلتھ کوڈ کے لئے درخواست دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

دراصل، چین گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنی کووڈ 19 پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیوں پر عمل پیرا رہا ہے تاکہ انہیں مزید  سائنسی ،درستگی کا حامل اور باہدف بنایا جا سکے. ان کوششوں کا نتیجہ یوں برآمد ہوا ہے کہ چین نے انسداد وبا اور اقتصادی سماجی امور میں ہم آہنگی سے نظام زندگی کو رواں رکھا اور اب موجودہ دور کے تقاضوں کی روشنی میں اپنی کووڈ پالیسی میں ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور بین الاقوامی آمد ورفت کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں. اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ اگر گزشتہ تین سالوں میں چین کی وضع کردہ انسداد وبا پالیسی پر عمل درآمد نہ کیا جاتا تو لاکھوں چینی شہریوں کی زندگیاں ضائع ہو جاتیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک نے ہمیشہ عوام کو مقدم رکھا اور چاہے وہ نوزائیدہ بچے ہوں یا 100سالہ بزرگ ، وبائی صورتحال میں اُن کا مکمل تحفظ کیا گیا ہے۔2020 کے اوائل سے چین کے مضبوط انسداد وبا ردعمل نے ایک ایسی قیمتی مہلت فراہم کی جس کی بنیاد پر آج چین اس قابل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے پالیسیوں میں ایڈجسٹمنٹ کر سکتا ہے۔آج جہاں کووڈ وائرس کی شدت میں کمی آ چکی ہے وہاں چین اپنی 1.4 ارب آبادی میں 90 فیصد سے زائد کی مکمل ویکسی نیشن کر چکا ہے ، چینی شہریوں میں صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا چکی ہے ، نیز  ایسےقیمتی تجربات اور علاج کے موثر طریقے تیار کیے جا چکے ہیں جو شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ میں انتہائی مددگار ہیں۔

تین سال قبل جب ابتدائی طور پر ووہان میں اس وائرس کا پتہ چلا تو یہ بہت زیادہ مہلک تھا۔ حکومت نے شہر کے اندر اور باہر نقل و حرکت کو بند کرنے کا ایک پختہ اور جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ چین کو ووہان میں وائرس پر قابو پانے اور اسے ملک کے دیگر حصوں میں پھیلنے سے روکنے میں تین ماہ لگے۔اس کے بعد،چین نے ملک میں لوگوں کی زندگیوں اور صحت کے تحفظ  کے لئے ڈائنامک زیرو کووڈ پالیسی کے تحت 100 سے زائد مقامی وبائی لہروں کو ختم کرنے کے لئے فوری طور پر رد عمل کا اظہار کیا.دریں اثنا، حکومت آج بھی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ملک بھر میں ویکسی نیشن مہم پر زور دے رہی ہے، جو اموات اور شدید بیماری کی روک تھام میں موثر ثابت ہوئی ہے۔

 یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ چین میں کسی بھی دیگر بڑے ملک کی نسبت کووڈ کے اثرات سب سے کم ہیں۔انہی موثر انسداد وبا پالیسیوں کے نتائج یوں برآمد ہوئے ہیں کہ لوگوں کی متوقع عمر 2019 میں 77.4 سے بڑھ کر 2020 میں 77.93 اور 2021 میں 78.2 ہوچکی ہے۔ان  کامیابیوں کی کلید یہی ہے کہ چینی حکومت نے اپنی  کووڈ 19 پالیسیاں تشکیل دیتے وقت لوگوں کی زندگی اور صحت کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں اور انسداد وبا کے درمیان ایک عمدہ ربط قائم کیا ہے جس کی بنیاد پر آج چین میں بین الاقوامی آمد ورفت بحال ہو چکی ہے اور چین ایک مرتبہ پھر "نو قرنطینہ” کے تحت سب کو خوش آمدید کہنے کا منتظر ہے۔

Leave a Reply

Back to top button