زراعتچینکالم

چین کے زراعت دوست ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت

شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین میں زراعت

پاکستان ایک زرعی ملک کہلاتا ہے اور کئی اہم فصلوں کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شائد آج تک اس زرعی شعبے سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کیا جا سکا ہے یا پھر اسے اُن جدید خطوط پر استوار نہیں کیا گیا ہے جو آج دنیا میں زراعت کی ترقی کے لیے لازم تصور کیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں اناج  کی قلت کا خطرہ رہتا ہے اور گندم کا حالیہ بحران اس کی واضح مثال ہے۔سوال یہی ہے کہ زراعت کی ترقی کے لیے ایسا کیا کیا جائے کہ پاکستان بھی اجناس کی پیداوار میں خودکفالت کی جانب بڑھ سکے۔اس حوالے سے ہمیں چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو  اپنی مضبوط زراعت کی بدولت نہ صرف چینی عوام کی خوراک کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کر رہا ہے بلکہ دنیا میں بھی تحفظ خوراک کا ایک بڑا نام ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کی زرعی ترقی نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں اور زرعی معیشت  60 سال سے زائد عرصے سے مسلسل ترقی کر رہی ہے،اسی باعث ملک کی خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کی صلاحیت میں نمایاں طور پر بہتری آئی ہے. فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق  چین کی  زرعی پیداوار کی مجموعی قدر ، مجموعی عالمی قدر کا 22.5 فیصد ہے ، جو 2018 سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ چین کی آبادی 1.4 بلین ہے جو  عالمی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے، مگر دنیا کی کل قابل کاشت اراضی کا صرف 9 فیصد چین کے پاس ہے ، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین کیسے اتنی بڑی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے اور خوراک کی فراہمی کا زیادہ تر حصہ چین کے اپنے ہی کھیتوں سے آتا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اناج کا تحفظ اور اہم زرعی مصنوعات کی محفوظ اور مستحکم فراہمی  ،چین کے زرعی شعبے کو مضبوط بنانے کی اولین ترجیحات ہیں۔اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کے ساتھ اناج کی پیداوار میں ہر سال مسلسل بہتری لائی جا رہی ہے۔گزشتہ سال کی ہی بات کی جائے تو ملک میں اناج کی پیداوار تقریباً 686.53 بلین کلوگرام رہی ہے، جو 2021 کے مقابلے میں 0.5 فیصد یا 3.68 بلین کلوگرام زائد ہے۔ یہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ چین نے موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ 19 دونوں کے انتہائی شدید اثرات کے باوجود یہ پیداوار حاصل کی ہے اور صرف گندم اور مکئی کی پیداوار میں بالترتیب 0.6 فیصد اور 1.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ برسوں میں چین نے زرعی اجناس کے حوالے سے اپنے اہم کھیتوں کو قدم بہ قدم "اعلیٰ معیار کے کھیتوں” میں اپ گریڈ کیا ہے اور 2022 کے آخر تک ملک میں اعلیٰ معیار کی زرعی زمین تقریباً 66.67 ملین ہیکٹر تک پہنچ چکی ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے چاول اور گندم کے لئے کم از کم قیمت خرید میں مسلسل اضافہ کیا ہے، اناج کی پیداوار کے لئے سبسڈی فراہم کی ہے، اور اپنی عمدہ پالیسیوں کی بدولت اہم زرعی  پیداوار ی علاقوں میں اناج پیدا کرنے والے کسانوں کے لئے لاگت میں کمی اور انکم انشورنس متعارف کروائی ہے۔اس دوران معاون زرعی وسائل کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے فنڈز مختص کیے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ زرعی ماہرین کو کسانوں کی مدد کے لئے ملک بھر کے کھیتوں میں بھیجا گیا ہے اور ٹیکنالوجی کی طاقت کو بھی مسلسل بروئے کار لایا گیا ہے۔

 چین کی کوشش ہے کہ ایک مضبوط زرعی شعبے کی تعمیر کو تیز کرنے کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اصلاحات پر انحصار کیا جائے ، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں مزید سرمایہ کاری سے قومی زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی کی سطح کو بلند کیا جائے ، اور زرعی تحقیق میں خود انحصاری کی کوششوں کو تیز کیا جائے۔ چین اس خاطرتکنیکی جدت طرازی کو فروغ دینے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہے ،بیج کی ایسی نئی اقسام کی کاشت کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں جن کی پیداوار زیادہ ہو اور وہ سبز اور کم لاگت ہوں۔ اسی طرح جدید زرعی تصورات مثلاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ڈرون وغیرہ کے استعمال سے فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی تلفی سمیت ، آبپاشی ، فصلوں کی بوائی و کٹائی اور کھاد کے استعمال میں رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے ، جس سے فصلوں کی زیادہ پیداوار اور تحفظ خوراک میں انتہائی معاونت ملی ہے۔ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی بدولت کسانوں کو اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کرنے کے مواقع ملے ہیں اور اشیاء کی ترسیل میں بھی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ۔انٹرنیٹ نے دیہی علاقوں میں زرعی ترقی کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے جبکہ کسانوں میں شعور اجاگر کرنے اور کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی میں بھی معاونت ملی ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ آج چین کا شمار دنیا کے اہم ترین اور بڑے زرعی ملک میں کیا جاتا ہے اور چین اپنے ٹھوس اقدامات اور زراعت دوست رویوں کی بدولت”زرعی ملک” کے ٹیگ پر پورا اتر رہا ہے۔

Leave a Reply

Back to top button