شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس وقت چین بھر میں اسپرنگ فیسٹیول (جشن بہار) کے دوران جشن کا ماحول انتہائی نمایاں ہے۔ ملک بھر میں جشن بہار کی سات روزہ عام تعطیلات ہیں اور کووڈ 19 سے نمٹنے کی نئی پالیسی کے بعد اس مرتبہ فیملی ری یونین یا خاندانوں کے ملاپ کا بھی پرجوش مشاہدہ کیا گیا ہے۔ لوگوں نے تقریباً تین سال کے بعد اپنے پیاروں اور عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے آ بائی علاقوں کا رخ کیا ہے۔چین کے جشن بہار کو آپ پاکستان میں عید کے تہوار سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ، بالکل وہی انداز ، وہی تیاریاں ، نئے ملبوسات سلوائے جاتے ہیں ، مزیدار روا یتی کھانے تیار کیے جاتے ہیں ،رشتہ دار عزیز ایک دوسرے کے گھر آ تے جاتے ہیں ، گھر کے برزگ بچوں کو پاکستانی طرز پر عیدی کی صورت میں نقد رقوم دیتے ہیں اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
تہوار کی تمام روایات کے درمیان ،نئے سال کی شروعات سے ایک روزقبل ضیافت یا عشائیہ ، جس میں خاندانی اجتماع کے ساتھ ساتھ لذیز پکوان شامل ہوتے ہیں ، ایک نمایاں ترین موقع کہلاتا ہے۔ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے چینی شہری جب اسپرنگ فیسٹیول کے موقع پر واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس ضیافت سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں تو اُن کی سال بھر کی ساری تھکان ان خوشگوار لمحات میں فوراً دور ہو جاتی ہے۔اس وقت جشن بہار کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں سیاحت سمیت دیگر تفریحی سرگرمیوں کو بھی بھرپور فروغ مل رہا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح دارالحکومت بیجنگ میں بھی شہری مختلف سیاحتی مقامات سمیت پارکس اور دیگر تفریحی مقامات کا رخ کر رہے ہیں اور تین سال بعد جشن بہار کی رعنائیاں اپنے عروج پر ہیں۔
ہم نے بھی اپنے ساتھیوں رضوان عباسی اور اعتصام الحق کے ہمراہ بیجنگ کی معروف "ایموزمنٹ پارک” کا رخ کیا اور جشن کے رنگوں سے خوب لطف اٹھایا۔سب سے پہلی چیز جس نے متاثر کیا وہ بزرگوں ،بچوں سمیت پارک میں ہزاروں افراد کی موجودگی تھی۔سبھی لوگ ہنستے مسکراتے چہروں ، رنگ برنگے دیدہ زیب ملبوسات پہنے جشن بہار سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے نظر آ ئے۔چین میں عموماً جشن بہار جنوری اور فروری کے مہنیوں میں منایا جاتا ہے اور اس وقت چین کے اکثریتی علاقوں میں سردی کا عالم بھی شدید ہوتا ہے لہذا تفریح کی غرض سے آنے والے افراد نے سرد موسم کے باعث گرم کپڑوں کا خصوصی اہتمام کیا ہوا تھا۔ اگرچہ "ایموزمنٹ پارک” میں ہزاروں افراد موجود تھے لیکن مجال ہے کوئی افراتفری کی کیفیت نظر آئی ہو ، انتہائی نظم وضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے بناء کسی دھکم پیل کے ہر کوئی اپنے مقررہ راستے پر گامزن تھا۔
جشن بہار کی مناسبت سے پارک میں جا بجا سرخ رنگ کی سجاوٹ اور آرائشی اشیاء بھی قابل دید تھیں۔سرخ رنگ کے لالٹین تو پارک کی خوبصورتی کو مزید نکھار رہے تھے۔لوگ درختوں پر لٹکی ہوئی آرائشی اشیاء کے ساتھ تصاویر بنواتے نظر آئے لیکن اس ضمن میں انفرادی سطح پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ آرائشی اشیاء کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ چونکہ چین میں شروع ہونے والے ہر نئے قمری سال کو کسی جاندار سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ سال خرگوش کا سال ہے ، لہذا پارک کے اندرونی حصوں میں خرگوش کی تصاویر ، مجسمے اور دیگر مختلف نمونے جا بجا نظر آ ئے ۔عموماً لوگ ایسی اشیاء کی خریداری میں بھی دلچسپی لیتے ہیں اور وہ افراد جن کی پیدائش کا یہ سال ہوتا ہے وہ تو لازمی یادگاری اشیا ء خریدتے ہیں کیونکہ ان کی پیدائش سے متعلقہ جاندار کا سال بارہ برس بعد آتا ہے ۔ تفریحی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ پارک میں مختلف ثقافتی تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں شریک چینی اور بیرونی فنکاروں نے اپنے فن کے عمدہ مظاہرے سے حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ جشن بہار کی مناسبت سے پارک کا رخ کرنے والے ہزاروں افراد کے لیے یہاں ایک فوڈ سٹریٹ بھی موجود تھی ، جہاں مختلف اقسام کے لذیز کھانوں سے محظوظ ہوا جا سکتا تھا۔ اگرچہ پاکستان کی نسبت چینی کھانوں میں مصالحوں کا استعمال کم کیا جاتا ہے لیکن واقعی مزیدار کھانے سرد موسم میں بھوک کی طلب کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے کھانوں سے بھی بھر پور انصاف کرتے دکھا ئی دیے۔پارک میں چونکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی والدین کے ہمراہ موجود تھی لہذا ان کی دلچسپی کا بھی سامان یہاں موجود تھا اور وہ مختلف جھولوں سمیت کھیلوں میں مگن نظر آئے۔
ہم تینوں نے بھی دن کا ایک بڑا حصہ پارک میں گزارا اور تین سال بعد جشن بہار کی حقیقی خوشیوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے ہوئے چینی شہریوں کے دمکتے چہروں کو دیکھا۔جشن بہار کی خوشیاں اور لوگوں کا جوش اس بات کا مظہر ہے کہ دکھ اور تکالیف کی شب جس قدر بھی طویل ہو مگر سحرکا اجالا ضرور نمودار ہو گا۔بقول جگر مراد آبادی
طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو