سفیرِ لیلیٰ: علی اکبر ناطق
ملک عادل اعوان
اس کتاب پر بات کرنے سے پہلے میں ایک اور بات کرنا چاہوں گا۔۔۔ میرے کچھ عزیز اساتذہ اور بہت دیرینہ دوست حضرات اکثر ایک بات کہتے ہیں کہ علی عادل، علی اکبر ناطق کا بہت زیادہ مقلد ہے۔۔۔ تو حضور سن لیں کہ ایسا ہی ہے۔۔۔ اب آپ اسکو جو رنگ دینا چاہیں دے لیں، علی اکبر ناطق میرا رشتے دار تو ہے نہیں۔۔۔ بات فقط اتنی ہے کہ مجھے پاکستان اور ہندوستان میں فاروقی صاحب کے بعد کوئی بھی ایسا ادیب دورِ حاضر میں نہیں دکھتا جو بیک وقت ایک سے زیادہ اصناف میں ایک سے بڑھ کر ایک ادبی تحریر تخلیق کرتا جائے اور ہر تخلیق سابقہ تخلیق سے عمدہ ہو۔۔۔ شاعری، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور پھر تنقید ہر جگہ جُداگانہ راستہ دکھا کر ایک نئی سمت کا تعین کرنے والا بھلا اور کون ہے؟؟؟ (آپ احباب کو علمی اختلاف کا پورا حق ہے بشرطیکہ وہ اختلاف واقع ہی علمی ہو)
اب بات کرتے ہیں اس کتاب کی۔۔۔
یہ کتاب علی اکبر ناطق کی اب تک کی اردو شاعری کی کلیات ہے جس میں "بے یقین بستیوں میں”، "یاقوت کے ورق”, "سُر منڈل کا راجہ”، "سبز بستیوں کے غزال”، "درِ عدالتِ علی” کے علاؤہ دو عدد نئی کتابیں "تصویروں کا باغ” اور "مارچ کے پھول” کو بھی جمع کیا گیا ہے۔۔۔
باقی کتابیں تو ہم نے پڑھ ہی رکھی تھیں اور ان تین چار دنوں میں ان میں سے بھی بہت سی نظمیں مقرر پڑھیں لیکن دو نئی کتابیں خوشبوؤں کے دو خوبصورت جھونکے تھے جو آب و تاب کے ساتھ محسوس ہوئے۔۔۔ شاعری کی رمزیں بہت باریکی سے تو شاید میں نہ جانتا ہوں لیکن ایک عجب روانی ناطق کی نظموں میں ہوتی ہے جو اور کہیں نہیں ملتی۔۔۔ غزلیں بھی بہت اچھوتی ہیں اور محض صنفِ مخالف کے ہیجانی احساسات کی تکرار کے بجائے ہر شعر زبان، ثقافت، محاورہ، ادبی چاشنی سے بھرپور اور شعور کی آگہی سے لبا لب بھرا ملتا ہے۔۔۔
ایسا اور کوئی ملے تو مجھے بتایئے گا ضرور۔۔۔
ویسے تو سب کچھ ہی بہت عمدہ ہے لیکن تصویروں میں اپنی سب سے پسندیدہ نظمیں مثال کے لیئے چسپاں کر رہا ہوں ضرور پڑھئے گا۔۔۔
یہ کتاب بک کارنر جہلم نے شائع کی ہے اور قیمت 1500 رکھی ہے۔۔۔ ادب کے ہر طالب علم پر یہ کتاب پڑھنا لازم ہے