تبصرہ کتب

خطوط غالب

علی عادل اعوان

دو ہزار اکیس کی اکیسویں کتاب…
مرتب: غلام رسول مہر
١٩٩٣
فیصل بنی دیکھو تمہارے ساتھ لگائے پچاس کتابوں کے جُوئے نے ہمیں زُبان و ادب کے کیسے کیسے خداؤں سے روشناس کروا دیا… اب اگر ہم حکیم احمر کی طرح گنتی نہ بھی پوری کر پاویں تو بھی خُدارا تم جوئے میں لگی کتابوں کی گنتی میں کمی نہ کرنا اور اسے میری فتح ہی سمجھنا وگرنہ ہمارا دل گھٹے گا اور دوسرا وہ حکیم بھی اپنا ہی شاگردِ خاص ہے کہ اس نے پڑھیں میں نے پڑھیں بات ایک ہی سمجھو کہ ہم پڑھ چکے جو وہ اب پڑھتا ہے…

اچھا اب سنو کہ اس بار میرے ہاتھ لگا مرزا مرحوم کے خطوط کا مجموعہ… یار اتنا لطف آیا کہ نہ پوچھو… پڑھتا تھا اور دلی میں گھومتا پھرتا تھا کبھی بلّی ماراں تو کبھی جہاں مرزا لے جاتے… خط تو مرحوم نے سب ہی بہت عمدہ لکھے تھے پہ جو علاؤالدین احمد خان علائی کو لکھے وہ تو کمال ہی تھے… گاہے گاہے اپنی شیعت کا کیا برملا اعلان کرتے جاتے تھے کہ میری بھی رہ رہ کر رال ٹپک جاتی… من میں آتا کہ ایسا اظہار تم سے یہاں میں بھی اپنے دل کا کر جاؤں مگر وہ جگرا اپنے اندر نہیں پاتا. وجہ اسکی یہ ہے کہ جو اب تک مولا نے دیا ہے اسکو جمع نہ کر پایا کہ دنیا کی بے رُخی قبولوں اور بے نیاز ہو کر کونے میں جا رہوں… ویسے سمجھنے والوں کہ لئے اس بات میں بھی نشانیاں ہیں…

تم شہرِ اقتدار آ کر بھی نہیں ملتے، سوچتا ہوں کتابیں شاگرد پڑھ چکا ہے اگر میں نے بھی پچاس نہ سہی چالیس پڑھ لیں تو کہیں مملکت سے ہی نہ بھاگ کھڑے ہو جاؤ… ویسے پیسا مدرسوں سے خوب پاتے ہو اس پر کچھ ہمارا بھی تو حق ٹھہرتا ہے…

کتاب پر زیادہ بات اس لئے نہیں کر رہا کہ معلوم ہے تم میرے اندازِ تکلم سے جان جاؤ گے کہ پڑھ کر سر پر سوار کئے بیٹھا ہوں… دوسرے علی ولی کا ماننے والا ہوں یہ بھی جانتے ہو کہ اتنا جھوٹا تو نہیں ہو سکتا کہ پڑھے بغیر ہانکتا پِھروں… ہاں یہ اقرار کئے لیتا ہوں کہ مکمل نہیں پڑھی مگر تمہاری شرط سے زیادہ پڑھی یہ پانسو صفحے کی کتاب۔ اسکی بھی وجہ یہ ہے کہ کچھ خطوط مطلب کے نہیں پاتا تھا تو آگے نکل جاتا تھا۔ ایک اور بات سنتے جاؤ کہ ہو سکے تو یہ پابندی صفحات کی مجھ سے اٹھا لو… اب اس کتاب کی لکھائی اتنی باریک ہے کہ استاد ناطق کے ناول کے طرز پر چھاپی جاتی تو پندھراں سو سے بھی نکل جاتی… بس یہ کہہ دیا ہوتا کہ کتاب پڑھو کتابچہ نہیں تو بہت ہوتا…

خطوط غالب

یہ خطوط کا مجموعہ قریب پانسو میں ایک پرانے کتاب گھر کے ذخیرے سے منگوایا تھا… اور عین ممکن ہے کہ دوسرا نسخہ انکے پاس نہ ہو… اور یہ میں تمہیں دینے کا نہیں…

ایک آخری بات… اب میری مانوں وہ گرم موسم تمہاری طبیعت کا نہیں، شکیل کی مانو اور اٹک اسکے مدرسے میں آ جاؤ… لڑکا محنتی ہے تمہیں بعد ڈبوئے گا پہلے خود ڈپکی لگائے گا… کبھی بھینسیں پانی میں اترتی دیکھی ہوں تو جان جاؤ گے کہ انکی سردار پہلے اترتی ہے باقی اسکی پیروی کرتی ہیں… گھبراؤ نہیں اور جی کڑا کر کے اُن طفلوں کے مدرسے والوں کو استعفیٰ لکھ بھیجو کہ تمہیں وہاں گُھن لگے یہ ہم سے نہ دیکھا جاوے گا… خوش رہو۔
کتابوں کا عادی۔۔۔ "عادی”

(یہ تحریر دو ہزار اکیس میں لکھی گئی جب میں عزیز دوست فیصل سے لگی ایک سال میں پچاس کتابیں پڑھنے کی شرط میں شامل تھا )

Leave a Reply

Back to top button