شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی چند روز قبل چین کی جانب سے سامنے آنے والی ایک خبر حیران کن تو تھی ہی مگر اس میں سیکھنے کے کئی پہلو مضمر ہیں۔قصہ یہ ہے جناب کہ چین کے جنوبی علاقے آبی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں جبکہ شمال کے اکثر علاقوں کو قلت آب کا سامنا رہتا تھا۔ملک کی اعلیٰ قیادت نے اس صورتحال کے ادراک سے ایک عظیم الشان ” ساؤتھ ٹو نارتھ واٹر ڈائورژن پروجیکٹ” کا آغاز کیا اور آج سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس منصوبے کے تحت نومبر 2013 سے اب تک 60 ارب مکعب میٹر پانی جنوب کے بڑے دریاؤں سے خشک سالی کے شکار شمال میں منتقل کیا جا چکا ہے۔پانی کی یہ مقدار ملک کے دوسرے طویل ترین دریا "دریائے زرد” کے اوسط سالانہ بہاؤ سے بھی زیادہ ہے۔اس بڑے منصوبے سے پندرہ کروڑ سے زائد افراد براہ راست مستفید ہوئے ہیں۔یہ امر قابل زکر ہے کہ ابھی یہ منصوبہ حتمی طور پر مکمل نہیں ہوا ہے بلکہ اس میگا پروجیکٹ کے تین روٹس ہیں جن میں سے دو آپریشن میں داخل ہو چکے ہیں۔اس میں درمیانی روٹ سب سے اہم ہے، جو وسطی چین کے صوبہ حوبے میں تانجیانگ کھو ریزروائر سے شروع ہوتا ہے اور بیجنگ اور تھیان جن پہنچنے سے پہلے صوبہ حے نان اور ہیبی سے گزرتا ہے۔اسی طرح مشرقی روٹ صوبہ جیانگ سو سے تھیان جن اور شاندونگ سمیت دیگر علاقوں تک پانی منتقل کرتا ہے۔مغربی روٹ منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہے اور ابھی تک تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔اس حوالے سے چین کی کوشش ہے کہ 2023 میں واٹر ڈائورژن منصوبے کی تعمیر کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی آبی نیٹ ورک کی تعمیر میں تیزی لائی جائے۔
یہ تو محض ایک آبی منصوبہ ہے ، وسیع تناظر میں گزشتہ دس سالوں میں چین میں آبی وسائل کی بقا اور تحفظ کے سلسلے میں تاریخی کامیابیوں کے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔چین نے گزشتہ دہائی کے دوران، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے موئثر اقدامات اپنانے اور آبی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ہمہ جہت نظام تشکیل دیا ہے۔آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ملک نے عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد میں سے دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔اس نظام کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں طاس پر مبنی روک تھام کے نظام میں مسلسل بہتری، قبل از وقت انتباہی اقدامات، مشقوں اور پیشگی منصوبہ بندی کی مضبوطی اور پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے کو سائنسی اور درست طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے بڑے سیلابوں پر قابو پایا ہے۔اس کے علاوہ ، دیہی علاقوں میں پینے کے محفوظ پانی کا دیرینہ حل طلب مسئلہ حل ہو چکا ہے، صاف پینے کے پانی کا مسئلہ جو کروڑوں کسانوں کو نسلوں سے درپیش تھا، تاریخی طور پر حل ہو چکا ہے۔ محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔اس ضمن میں 2019 میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایکشن پلان جاری کیا گیا اور کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی ٹیکنالوجی کی اختراعات شامل ہیں۔
اس تناظر میں چین کی اعلیٰ قیادت کے رویے بھی قابل تقلید ہیں جو عوام کو باور کرواتے ہیں کہ ہم نے فطرت کی قیمت پر ترقی نہیں کرنی ہے بلکہ ایسی اقتصادی سماجی ترقی کو پروان چڑھانا ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو ۔ چین کے اعلیٰ رہنما تواتر سے ان آبی وسائل کے حیاتیاتی ماحول کا جائزہ لیتے ہیں اور موقع پر ہی احکامات صادر کیے جاتے ہیں۔اس طرح متعلقہ حکام بھی آبی زخیروں بالخصوص دریاوں کے تحفظ کے لیے ہمیشہ چوکس رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ کسی بھی وقت ان سے بازپرس کی جا سکتی ہے اور غفلت کا کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں 1.2 ملین سے زیادہ افراد کو دریاؤں اور جھیلوں کے سربراہوں کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، تاکہ ملک میں پانی کے ایسے ذخائر کے ماحولیاتی تحفظ سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور مقامی حالات کے مطابق آبی آلودگی سے نمٹنے اور آبی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے درست اقدامات کیے جا سکیں۔ علاوہ ازیں، چین نے کچھ علاقوں میں مٹی کے کٹاؤ اور زمینی پانی کے بے تحاشہ استعمال جیسے مسائل کو حل کرنے میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ آبی زخائر کو بحال کیا گیا ہے۔تحفظ آب میں چین کی کامیابیاں اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں فطرت اور مادی ترقی میں ہم آہنگی کے تصور پر عمل پیرا ہے۔