چینٹیکنالوجیکالم

پاکستانی بیجوں کا خلاء کا کامیاب سفراورواپسی

شاہد افراز خان ،بیجنگ

جی ہاں ، خلاءسے پاکستانی بیج کامیابی سے واپس زمین پر آ چکے ہیں۔ بلاشبہ، "چین پاک دوستی” کی کوئی حد نہیں ہے اور  ہمالیہ سے بلند ،شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری یہ دوستی اب خلاء میں بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑ رہی ہے۔اس کی تازہ ترین مثال دونوں ممالک کے درمیان "خلاء میں بیج” منصوبہ ہے جو دونوں ممالک کے سائنسدانوں کے درمیان تعاون میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس منصوبے کے تحت چین کی انسان بردار خلائی تنظیم کے تعاون سے پاکستانی اور چینی سائنسدانوں کی جانب سے خلاء میں بیج بھیجے گئے تھے ، جن کا اب کامیاب واپسی کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ بیج چین کے شین زو 14 انسان بردار خلائی مشن کے ذریعے خلاء میں بھیجے گئے تھے جسے جون 2022 میں ایک سائنسی تجربے کے لیے خلا میں روانہ کیا گیا تھا اور گزشتہ دسمبر میں ہی مشن کا عملہ بحفاظت زمین پر واپس آ گیا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب دونوں ممالک کے سائنسدانوں کی مشترکہ کاوشوں سے پاکستانی ادویاتی بیج خلا میں بھیجے گئے جو نہ صرف دوسرے سیاروں پر مزید تحقیق کے بے پناہ مواقع فراہم کریں گے بلکہ گلوبل وارمنگ کے سبب شدیدموسمیاتی حالات میں زمین پر پودوں کی کاشت کو بھی آسان بنائیں گے۔ خلا میں بھیجے گئے بیجوں میں میتھی، مہندی، سوہانجنا، اشوا گندھا، گوکھرو اور کورنجوا شامل ہیں۔

دوسری جانب یہ تجربہ چین پاکستان سائنس و ٹیکنالوجی تعاون میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ان دونوں ممالک کی دوستی کی تاریخ میں بھی درج کیا جائے گا۔ساتھ ساتھ  یہ منصوبہ پاکستان کی سائنسی تحقیقاتی تاریخ میں بھی ایک نمایاں پیش رفت ہے۔ بنیادی طور پر "خلاء میں بیج” منصوبہ محققین کو علم اور وسائل کے اشتراک کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جو معاشی ترقی کے لیے لازم ہے۔اسی باعث اس منصوبے کو خلائی سائنس، جڑی بوٹیوں کی ادویات اور تحقیق کو آگے بڑھانے میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ساتھ ساتھ یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ جلد ہی پاکستانی خلاباز چین کے ساتھ خلائی مشن میں شامل ہوں گے۔اس حوالے سے پہلے ہی  چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی اور پاکستان اسپیس  اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن کے درمیان انسان بردار خلائی مشنز  سے متعلق تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے جا چکے ہیں۔ معاہدے کے مطابق، دونوں فریقوں کے درمیان تعاون کے ممکنہ شعبوں میں خلائی سائنس کے تجربات اور تکنیکی تجربات، خلابازوں کا انتخاب و تربیت اور پرواز،  انسان بردار خلائی پرواز سے متعلق سائنسی اطلاق اور کامیابیوں کو آگے بڑھانا شامل ہیں۔

تاریخی اعتبار سے دونوں ممالک نے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے 1976 میں ایک بین الحکومتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تا حال، دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر تقریباً پانچ سو سائنسی تعاون کے منصوبوں کی مالی اعانت کی جا چکی ہے جن میں زراعت، ایرو اسپیس، اور کیمیائی صنعت وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آبی وسائل کے تحفظ، طب اور صحت کی دیکھ بھال، بائیو ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس، ماحولیات، توانائی، موسمیات، جیولوجی اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ کے شعبوں میں بھی دونوں ممالک کے درمیان بہت سے منصوبوں کی مالی اعانت کی گئی۔2021 میں ہی دونوں ممالک کے اسکالرز کے مشترکہ طور پر آٹھ ہزار سے زائد مقالے شائع ہوئے ہیں جو  2013 میں جب "بیلٹ اینڈ روڈ” انیشیٹو لانچ کیا گیا تھا اس سے 13 گنا زیادہ ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری فریم ورک میں بھی دوطرفہ سائنس و ٹیکنالوجی تعاون کو شامل کیا گیا ہے جو یقینی طور پر سی پیک کے اعلیٰ معیار اور پائیدار ترقی کو مضبوط مدد فراہم کرے گا۔

spce seed2

وسیع تناظر میں چین نے ہمیشہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے جذبے کے تحت خلاء کو پرامن طریقے سے استعمال کیا ہے اور اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے ساتھ رابطے اور تعاون کو برقرار  رکھاہے۔ اس کا ثبوت یہی ہے کہ چین نے خلائی تحقیق کے حوالے سے متعدد ممالک کے پیش کردہ درجنوں منصوبوں کو منتخب کیا ہے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چین خلائی اسٹیشن پر خلائی تجربات کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ بھی تعاون کر رہا ہے۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین کا بین الاقوامی سائنس و ٹیکنالوجی تعاون کھلا، اشتراکی اور جامع ہے۔ چین آج بھی پاکستان سمیت دیگر  تمام ممالک کے ساتھ برابری، باہمی مفاد، پرامن استعمال اور جامع ترقی کی بنیاد پر خلائی تحقیق میں تعاون کا خواہاں ہے ، تاکہ خلائی تحقیق کی کامیابیاں بنی نوع انسان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خدمات انجام دے سکیں ۔

Leave a Reply

Back to top button