شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ برسوں میں موسمیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی میں چین کی ترقی نے نہ صرف اس کی اپنی آبادی بلکہ باقی دنیا کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔ عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) بھی تسلیم کرتی ہے کہ چین کی موسمیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی، خاص طور پر موسمیاتی سیٹلائٹس کے شعبے میں ترقی دنیا میں ایک نمایاں درجے پر پہنچ چکی ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کے موسمیاتی تصورات میں کھلا پن، اشتراکیت اور باہمی شیئرنگ کی خصوصیات نمایاں ہیں۔تاریخی اعتبارسے 1972 میں ڈبلیو ایم او میں اپنی قانونی نشست کی بحالی کے بعد سے ، تنظیم میں چین کا کردار چار مراحل سے گزرا ہے جن میں انضمام ، شراکت ، شمولیت اور قیادت ، شامل ہیں۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ ڈبلیو ایم او کے اعداد و شمار کے بغیر، کوئی بھی ملک ایک دن سے زیادہ موسم کی پیش گوئی نہیں کر سکتا ہے۔ڈبلیو ایم او اور عالمی موسمیاتی پیش گوئی کے لیے یہ بہت اہم تھا کہ چین کے 9.6 ملین مربع کلومیٹر کے علاقے سے موسمیاتی اعداد و شمار کو عالمی سطح پر شیئر کیا جائے۔گزشتہ 20 سالوں میں ، چین نے سائنس اور ٹیکنالوجی اور موسمیاتی ترقی کے تصورات میں ترقی کی بدولت ڈبلیو ایم او کے اندر تیزی سے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ہر روز دنیا بھر میں قریباً 900 مقامات پر لیٹیکس سے بنے آزاد غبارے چھوڑے جاتے ہیں۔ تقریباً 1,000 غبارے روزانہ موسمی حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں جس کے ذریعے زمین اور فضا کے موجودہ حالات سے آگاہی ملتی ہے۔اس طرح جمع کی جانے والی قیمتی اطلاعات سے کمپیوٹر پر موسمی پیش گوئی کے نمونے تیار کرنے، ماہرین موسمیات کو آئندہ موسم کا حال بتانے اور طوفانوں کی پیش گوئی کرنے، موسمیاتی نگرانی اور موسمیاتی عمل کو بہتر طور سے سمجھنے کے لیے تحقیقی مقاصد کے لیے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔اس ضمن میں چین کے تقریباً100 موسمی غبارے دنیا کو موسمیات سے متعلق قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں جو مجموعی عالمی تناسب کا دس فیصد بنتا ہے . اسی طرح عالمی موسمیاتی تنظیم کا سیٹلائٹ پروگرام تقریباً 30 آپریشنل سیٹلائٹس کو مربوط کرتا ہے ، جن میں سے سات یا آٹھ چین سے ہیں۔ یہ بنیادی مشاہدے کا نظام موسمیاتی خطرات کی نگرانی کے لئے سب سے طاقتور اوزار ہیں.
یوں کہا جا سکتا ہے کہ موسمیاتی سیٹلائٹس چینی ٹیکنالوجی کا ایک اور روشن مقام ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ 2017 میں عالمی موسمیاتی تنظیم اور ایشیا اور اوقیانوسیہ کے سات ممالک بشمول چین، جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، آسٹریلیا، روس اور بھارت نے ایشیا اور اوقیانوسیہ کے موسمیاتی سیٹلائٹ یوزر شیئرنگ میکانزم پر اتفاق کیا تھا، جو جنوبی نصف کرہ کے ایسے مزید ممالک کو اہم موسمیاتی سیٹلائٹ خدمات فراہم کرتا ہے جن کے پاس اپنے موسمیاتی سیٹلائٹ نہیں ہیں۔ اس طرح کا میکانزم بڑے تباہ کن موسمی واقعات کی صورت میں، موسمیاتی سیٹلائٹ سروس کو ہر آدھے گھنٹے کے بجائے ہر منٹ کے مشاہدے کی فریکوئنسی فراہم کرسکتا ہے تاکہ طوفان جیسے موسمی حالات کا زیادہ درست جواب دیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی تنظیم ، موسمیاتی سیٹلائٹ رکھنے والے ممالک پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ بڑے موسمیاتی واقعات کا سامنا کرنے والے ممالک کو مشاہداتی خدمات فراہم کریں۔
چین نے اس "اپیل” کا سب سے پہلے جواب دیا اور موسمیاتی مشاہدے کی خدمات فراہم کرنے کے لئے 28 ممالک کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔اس سب کے پیچھے جدید ٹیکنالوجی اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چینی موسمیاتی سیٹلائٹس کی بڑھتی ہوئی مقدار ہے۔چین کے پاس اس وقت جغرافیائی مدار میں گردش کرنے والے چار موسمیاتی سیٹلائٹ کام کر رہے ہیں، جو زمین کی سطح کے تقریباً نصف رقبے کا احاطہ کرتے ہیں۔ چین کے ان موسمیاتی سیٹلائٹس نے دنیا کو بھی فائدہ پہنچایا ہے، جس کی ایک اہم مثال گزشتہ سال انڈونیشیا میں منعقدہ جی 20 سربراہ اجلاس ہے ۔ چین نے انڈونیشیا کی درخواست پر شرکت کرنے والے سربراہان مملکت کی پروازوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے موسم کی بہترین پیش گوئی اور مشاہدے کی خدمات فراہم کیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی موسمیاتی ٹیکنالوجی نے نہ صرف اس کی قومی معیشت بلکہ اہم بین الاقوامی سیاسی واقعات میں سلامتی کی بھی خدمت کی ہے۔
گزشتہ سال موسمیات کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے آئندہ پانچ سالوں میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی اور آب و ہوا کی پیشگی وارننگ سسٹم قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ زمین پر ہر شخص کو شدید موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بچایا جا سکے۔اس ضمن میں چین ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کے طور پر موسمیاتی خدمات میں انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کی مسلسل مدد کر رہا ہے،ایسے ممالک میں اہلکاروں کو تربیت دینے اور قبل از وقت وارننگ سسٹم قائم کرنے میں مدد کر رہا ہے۔سنہ 2013 سے چین نے ڈبلیو ایم او کے تعاون سے ، آفات کو کم کرنے اور روک تھام کے نظام اور آف شور سیٹلائٹ ریسیپشن سسٹم کی تعمیر میں سات افریقی ممالک کی مدد کی ہے۔موسمیاتی خدمات میں چین کی مسلسل مدد کو، ترقی پذیر ممالک کی اکثریت نے تسلیم کیا ہے اور سراہا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ موسمیاتی سیٹلائٹس کے حامل تمام ممالک چین کی پیروی کرتے ہوئے ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو بروقت تعاون فراہم کرتے ہوئے آفات کی روک تھام میں مدد کر سکیں گے.