شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین وسطی ایشیا سربراہ اجلاس جمعرات سے چین کے صوبہ شان شی کے شہر شی آن میں منعقد ہو رہا ہے، جو چین کے تھانگ خاندان (618-907) میں شاہراہ ریشم کا نقطہ آغاز بھی ہے۔دو ہزار سال قبل چین کے ہان شاہی دور کے ایک سفیر نے امن کے مشن پر مغرب کا سفر کیا اور مشرق اور مغرب کو ملانے والا ایک زمینی راستہ کھولا۔ ہزاروں میل اور سالوں پر محیط قدیم شاہراہ ریشم، جس کی سب سے زیادہ طوالت وسطی ایشیا میں پھیلی ہوئی ہے، تعاون، باہمی سیکھنے اور باہمی فائدے کے جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔ستمبر 2013 میں آستانہ، قازقستان کی نذربایوف یونیورسٹی میں خطاب کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے سب سے پہلے سلک روڈ اکنامک بیلٹ کی تعمیر کی تجویز پیش کی تھی، جو 21 ویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کے ساتھ مل کر بعد میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں تبدیل ہوئی، جس کا مقصد ایشیا کو یورپ ، افریقہ اور اس سے آگے سے جوڑنے والا تجارتی اور بنیادی ڈھانچے کا نیٹ ورک بنانا تھا .
جب سے بی آر آئی پیش کیا گیا ہے ، چین اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک یعنیٰ قازقستان ، کرغزستان ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان نے وسیع تر علاقائی ترقی کے لئے اپنے تعاون کو بڑھایا ہے اور تاریخی اور سنگ بنیاد کامیابیوں کا ایک سلسلہ تشکیل دیا ہے۔بڑھتے ہوئے تجارتی مراسم کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2023 کے پہلے چار ماہ میں پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کی تجارت میں سال بہ سال 37.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں ، پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کی مجموعی تجارت 70.2 بلین ڈالر تھی ، جو 30 سال پہلے کے حجم سے تقریبا 100 گنا زیادہ ہے۔گزشتہ سال چین کی پانچ وسطی ایشیائی ممالک سے زرعی، توانائی اور معدنی مصنوعات کی درآمدات میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا جبکہ انہیں مکینیکل اور الیکٹرانک مصنوعات کی برآمدات میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2022 کے آخر تک ان ممالک میں چین کی براہ راست سرمایہ کاری تقریباً 15 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔تیل، گیس اور کان کنی، پروسیسنگ اور مینوفیکچرنگ، کنیکٹیوٹی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر مشترکہ طور پر نافذ کیے جانے والے متعدد تعاون کے منصوبوں کے ساتھ، ان ممالک کے لوگوں کے لیے ٹھوس فوائد لائے گئے ہیں.
اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے جہاں روٹ سے وابستہ ممالک کے مابین باہمی رابطے کو مؤثر طریقے سے فروغ دیا ہے اور علاقائی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا ہے ،وہاں خاص طور پر خشکی سے گھرے وسطی ایشیا کے لیے بے پناہ ثمرات لائے ہیں۔گزشتہ سال ستمبر میں چینی صدر شی جن پھنگ کے ازبکستان کے سرکاری دورے کے دوران چین ۔ کرغزستان ۔ ازبکستان ریلوے کے کرغیز سیکشن پر تعاون کی ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے ، جسے یوریشین براعظم میں ایک ٹرانسپورٹ کوریڈور کی تعمیر میں اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔وسطی ایشیا سے گزرنے والی چین یورپ مال بردار ٹرینیں، چین۔قازقستان ہارگوس انٹرنیشنل فرنٹیئر کوآپریشن سینٹر، اور مشرقی چین کے صوبہ جیانگ سو میں لیان یون گانگ بندرگاہ میں چین۔قازقستان انٹرنیشنل لاجسٹک بیس نے وسطی ایشیائی ممالک کے لیے عالمی منڈیوں کے دروازے کھولنے میں مدد کی ہے۔یہ لاجسٹک بیس چین اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے درمیان نقل و حمل، ٹرانزٹ، ویئر ہاوسنگ، لاجسٹکس اور تجارت کے لئے ایک بین الاقوامی مرکز کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس لاجسٹک بیس کا افتتاح 2014 میں ہوا تھا جس کے بعد سے یہ بیس بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔اس بیس کی بدولت قازقستان کے لئے زرعی مصنوعات اور معدنی مصنوعات برآمد کرنا زیادہ آسان ہو گیا ہے. جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر ممالک کی مصنوعات قازقستان میں زیادہ تیزی سے داخل ہوسکتی ہیں۔2022میں ،اس بیس سے گزرنے والے کنٹینرز کی تعداد 51854 ٹی ای یو تک پہنچ گئی ۔آج یہاں سے تعمیراتی مواد ، گھریلو سامان ، میکانی اور برقی سامان ، خوراک ، معدنیات ، کیمیکلز اور دیگر کئی مصنوعات کی نقل و حمل کی جاتی ہے۔اس بیس سے گزرنے والے بین الاقوامی کنٹینرز کے لیے ٹرانزٹ کا وقت بھی آج چار دن سے کم ہوتے محض ہوئے ایک دن سے بھی کم رہ گیا ہے۔
اسی طرح بی آرآئی کے تحت بڑھتے ہوئے باہمی رابطے نے بہت سی چینی کمپنیوں کو خطے میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی ہے۔دوسری جانب وسطی ایشیائی ممالک بھی بی آر آئی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اور بی آر آئی کی کامیابی ان کے تعاون سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔وسطی ایشیائی ممالک کے نزدیک یہ اقدام نہ صرف خطے کی اقتصادی ترقی میں حصہ ڈال رہا ہے بلکہ اس کے لوگوں کے ذریعہ معاش کو بھی بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے اور بہتر بنیادی ڈھانچے اور روزگار کے زیادہ مواقع میسر آ رہے ہیں۔مستقبل میں چین بی آر آئی کے فریم ورک کے تحت دونوں فریقوں کے درمیان اعلیٰ معیار کے تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے بھی پر عزم ہے۔یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حالیہ چین وسط ایشیا سمٹ بی آر آئی کے مزید فروغ کے لیے عملی اقدامات کا تعین کرے گا جس سے علاقائی خوشحالی کا نیا باب شروع ہو گا۔