کالمچینصحت و زندگی

چین اور عالمی صحت عامہ کا تحفظ

شاہد افراز خان ،بیجنگ

health2

ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد ہر سال جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں کیا جاتا ہے۔یہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے لئے فیصلہ سازی کے ادارے کے طور پر کام کرتی ہے. رواں سال کی اسمبلی 21 مئی سے 30 مئی تک جاری رہے گی۔ ایک بڑے ذمہ دار ملک کے طور پر چین نے بنی نوع انسان کو صحت سے متعلق درپیش مسائل کا ہمیشہ ادراک کیا ہے اور اپنے انسان دوست رویوں سے عالمی برادری سے تحسین وصول کی ہے۔چین کی انسانی ہمدردی کا ایک نمایاں پہلو دنیا میں طبی وسائل کی فراہمی بھی ہے جس میں دنیا کے کمزور یا غریب ممالک کو اولین ترجیح حاصل رہی ہے۔چینی حکام نے 76 ویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں شرکت کے دوران بھی کہا کہ چین عالمی صحت کی سلامتی کے تحفظ اور سب کے لئے صحت کی عالمی برادری کے قیام کو آگے بڑھانے کے لئے بین الاقوامی تعاون کا فروغ جاری رکھے گا۔اسمبلی کے دوران چینی وفد صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال، یونیورسل ہیلتھ کوریج، غیر متعدی بیماریوں اور مجوزہ پروگرام بجٹ برائے 2024-2025 سے متعلق 70 سے زائد تجاویز کا جائزہ لے گا۔

حالیہ برسوں کے دوران، چین نے صحت کی دیکھ بھال میں نمایاں پیش رفت کی ہے، اس وقت صحت کے اہم اشاریے درمیانی اور اعلیٰ آمدنی والے ممالک کے برابر ہیں.صحت عامہ سے متعلق بہتر پالیسیوں کا نتیجہ یوں برآمد ہوا ہے کہ 2021 میں چین میں اوسط عمر 78.2 سال تک بڑھ  چکی ہے، جو 1949 میں ملک کے قیام کے وقت صرف 35 سال تھی.چین کی ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی ہے کہ اپنے بہترین تجربات اور کامیابیوں کا دیگر دنیا سے تبادلہ کیا جائے ، یہی وجہ ہے کہ وہ صحت کی دیکھ بھال کی ترقی کی کوششوں سے حاصل کردہ معلومات کو بین الاقوامی برادری تک فعال طور پر پھیلا رہا ہے۔واضح رہے کہ 2023 میں چین کی جانب سے اپنی پہلی میڈیکل ٹیم بیرون ملک بھیجنے کی 60 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس کے بعد سے چین نے پانچ براعظموں افریقہ، ایشیا، امریکہ، یورپ اور اوقیانوسیہ کے 76 ممالک اور خطوں میں 30 ہزار ارکان پر مشتمل میڈیکل ٹیمیں بھیجی ہیں۔ ان ٹیموں نے مقامی سطح پر 290 ملین افراد کو تشخیص اور علاج فراہم کیا ہے۔مزید برآں، چین نے 41 افریقی ممالک میں 46 اسپتالوں کے ساتھ روابط قائم کیے ہیں. ملک نے 30 سے زیادہ ممالک میں موتیا اور دل کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لئے مفت کلینک اور سرجری کا انعقاد کیا ہے۔افریقہ میں 2014 سے 2015 تک ایبولا وائرس پھیلنے کے ردعمل میں چین نے 1200 سے زائد طبی کارکنوں کو متاثرہ ممالک میں بھیجا ہے۔ بے شمار مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود، چینی ڈاکٹروں نے زندگیاں بچانے، امراض کا علاج کرنے، نئی دوستیاں قائم کرنے اور پورے افریقہ میں خیر سگالی کو فروغ دینے کے لئے اپنی کوششوں میں ثابت قدمی سے کام لیا ہے.ان کے غیر متزلزل عزم، فرض شناسی کے احساس اور مثالی مہارت نے انہیں براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ خوش آمدید مہمانوں کے طور پر شہرت دلائی ہے، اور انہیں بے شمار افریقی شہریوں سے محبت ملی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب چین اور افریقہ نئے عہد میں ایک مشترکہ ہم نصیب سماج کی تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں ، جس میں سب کے لئے صحت کی عالمی برادری کی تعمیر بھی شامل ہے ، افریقہ میں امدادی مشنوں پر خدمات انجام دینے والے چینی ڈاکٹر اس عظیم مقصد میں اپنی عظیم شراکت کے ساتھ روشن مثال بن گئے ہیں۔

اسی طرح حالیہ کووڈ 19 وبائی صورتحال کے دوران چین نے 34 ممالک میں 38 ماہرین کی ٹیمیں بھیجی ہیں، 120 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو 2.2 ارب سے زائد کووڈ 19 ویکسین فراہم کی گئی ہیں اور 153 ممالک اور 15 بین الاقوامی تنظیموں کو کئی سو ارب یونٹ اینٹی کووڈ سپلائی فراہم کی ہیں۔ چین کی جانب سے ہمیشہ یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ صحت کے چیلنجوں سے نمٹنے اور مختلف ممالک میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے عالمی برادری کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ چین کی یہ کوششیں بین الاقوامی برادری کو عوامی بھلائی کی فراہمی کے لئے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے چین کے غیر متزلزل عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔

Leave a Reply

Back to top button