شاہد افراز خان، بیجنگ
حقائق کے تناظر میں گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران، چین خلائی (خلائی مشن) تحقیق کے شعبے میں ایک نمایاں کھلاڑی میں تبدیل ہو چکا ہے. چین نے نہ صرف اہم خلائی سائنسی ترقی کی ہے بلکہ اس کے سیٹلائٹس نے چین اور باقی دنیا کے درمیان رابطے اور دوستی کے "ذریعے” کا کام بھی کیا ہے۔چین کی جانب سے خلائی ٹیکنالوجی کی حاصل شدہ ترقی کا مقصد نئے دور میں انسان بردار خلائی پروازوں کا فروغ، چاند کی کھوج اور بیدو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم کی روح کو آگے بڑھانا رہا ہے۔ اس دوران بیرونی خلا میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر سمیت، عوام، خاص طور پر نوجوانوں میں خلا کی دریافت اور کائنات کے رازوں کی کھوج کی بھرپور حمایت کی گئی۔
اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے تیس مئی کی صبح 9 بج کر 31 منٹ پر چین کا شین زو۔16 انسان بردار خلائی جہاز کامیابی کے ساتھ لانچ کر دیا گیا ۔چینی خلائی اسٹیشن کے اپنے اطلاق اور ترقی کے مرحلے میں داخل ہونے کے بعد یہ پہلا انسان بردار مشن ہے جبکہ انسان بردار منصوبے پر عمل درآمد کے بعد 29 واں لانچ مشن اور لانگ مارچ سیریز راکٹ کی 475 ویں پرواز ہے۔لانچ کے تقریباً 10 منٹ بعد شین زو۔16 خلائی جہاز راکٹ سے الگ ہو کر اپنے مقررہ مدار میں داخل ہو گیا جس کے بعد چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی نے لانچ کو مکمل طور پر کامیاب قرار دیا۔ خلائی جہاز کو لانگ مارچ 2 ایف راکٹ کے ذریعے شمال مغربی چین کے جیوچھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں چھوڑا گیا۔ چینی خلائی ایجنسی کے مطابق تین رکنی عملہ تقریباً پانچ ماہ تک چین کے خلائی اسٹیشن پر قیام کرے گا۔تینوں خلاباز مدارمیں آزمائشی اور تحقیقاتی کام کریں گے۔خلاباز نوول کوانٹم صورتحال ،اعلیٰ سطحی خلائی ٹائم فریکوئنسی سسٹم، عمومی اضافیت کی تصدیق اور زندگی کی ابتدا کے مطالعے پر بھی کام کریں گے۔اپنے قیام کے دوران تینوں خلاباز مختلف دیگر کاموں میں بھی مشغول رہیں گے، جن میں سائنسی تجربات کرنا، پے لوڈ ایپلی کیشنز کی جانچ کرنا، ایکسٹرا ویکیولر سرگرمیاں اور ایئرلاک ماڈیول سے کارگو کے کام بھی شامل ہیں۔ وہ خلائی اسٹیشن پر اضافی پے لوڈ نصب کرنے اور دیکھ بھال اور مرمت کے کاموں میں بھی شامل ہوں گے۔
مشن میں شامل خلا بازوں کا زکر کیا جائے توجینگ ہائی پھنگ، چو یانگ چو اور گوئی ہائی چھاؤ پر مشتمل 3 رکنی عملہ مستقبل میں تھیان زو ۔5 کارگو خلائی جہاز اور شین زو ۔17 انسان بردار خلائی جہاز کی ڈاکنگ کے ساتھ ساتھ شین زو۔ 15 انسان بردار خلائی جہاز اور تھیان زو۔ 5 کارگو جہاز کی خلائی اسٹیشن سے زمین کی جانب روانگی کا مشاہدہ کرے گا۔لانچ سے قبل جیوچھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر میں تین رکنی عملے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔مشن کے کمانڈر جینگ ہائی پھنگ اس مشن کے ساتھ چوتھی بار خلا میں جانے والے پہلے خلا نورد بن چکے ہیں ،اس سے قبل انہوں نے شین زو۔7 ، شین زو۔9 اور شین زو۔11 انسان بردار خلائی مشنوں میں حصہ لیا تھا ، آخری دو میں کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ دریں اثنا، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل یونیورسٹی کے سابق استاد چو یانگ چو چین کے خلائی اسٹیشن میں داخل ہونے والے پہلے فلائٹ انجینئر ہوں گے۔ تیسرے رکن گوئی ہائی چھاؤ بیہانگ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ان کی آمد پر چین کا خلائی اسٹیشن اپنے پہلے پے لوڈ اسپیشلسٹ کا خیرمقدم کرے گا۔
اس مشن کے ساتھ ساتھ چین رواں سال کے آخر میں ایک نیا ایکس رے سیٹلائٹ آئن سٹائن پروب لانچ کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ یہ سپرنووا دھماکے سے روشنی کی پہلی کرن کو کیپچر کرنے، کشش ثقل کی لہروں کے منبع کی تلاش اور نشاندہی میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ کائنات میں زیادہ دور دراز اور غیر معمولی افلاکی اجسام اور عارضی مظاہر کو دریافت کرنے کے قابل ہوگا۔یہ سیٹلائٹ منصوبہ ترقی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔سیٹلائٹ پر تازہ ترین لوبسٹر آئی ٹیلی سکوپ نصب کی جائے گی تاکہ ایکس رے ایونٹس کا پہلے سے کہیں زیادہ گہرائی اور وسیع پیمانے پر پتہ لگانے میں مدد مل سکے۔اس ٹیکنالوجی پر 2010 سے کام جاری ہے اور اس کی کامیاب آزمائش کی گئی ہے ۔چینی ماہرین کے نزدیک لوبسٹر آئی ٹیلی سکوپ ٹیکنالوجی ایک تاریک، گہری کائنات میں وسیع نظارے کا مشاہدہ کر سکتی ہے.یہ امر قابل زکر ہے کہ چین پہلے ہی کچھ خلائی مشنز مکمل کر چکا ہے جن میں سیٹلائٹ لانچ، لانگ مارچ 11 کیریئر راکٹ کی لانچ اور کمرشل راکٹ لانچ کرنا شامل ہیں۔چین ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ساتھ بھی اشتراک کر رہا ہے اور عالمی اسپیس تعاون کو انسانیت کے بہترین مفاد میں آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔