کالمچینزراعت

جدید زراعت کا دور

شاہد افراز خان ،بیجنگ

Modern Agriculture

چین کا شمار دنیا کے بڑے زرعی ممالک میں کیا جاتا ہے جو زراعت کے وسائل سے مالا مال ہیں اور جہاں جدت کی بدولت زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں حد تک خودکفالت کی منزل حاصل کر لی گئی۔ اس کی اہم وجہ ملک بھر میں فصلوں کی بہتر پیداوار کے لیے جدید زرعی مشینری کا استعمال اورکاشتکاروں کی خوشحالی اور دیہی حیات کاری جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اسی طرح ملک کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بھی زرعی سائنسدانوں اور کسانوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی اختراعی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کریں اور زرعی شعبے کو ترقی دیں۔اس کی تازہ ترین مثال چینی صدر شی جن پھنگ کا اندرون منگولیا خود اختیار علاقے کا دورہ ہے جس میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر جدید زرعی اصولوں کی اہمیت کھل کر اجاگر کی۔انہوں نے  ایک جدید زرعی ماڈل پارک کا دورہ کیا اور اعلیٰ معیار کے کھیتوں کی ترقی کے بارے میں اہم ہدایات جاری کیں ۔یہ ماڈل پارک زرعی اداروں، فارموں، تحقیقی اداروں اور تجارتی خدمات فراہم کرنے والوں کے تعاون  کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے۔اس ماڈل پارک نےبیدو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم (بی ڈی ایس)، بغیر پائلٹ والی زرعی مشینری اور اسمارٹ کنٹرول سسٹم سمیت اعلیٰ ٹیکنالوجیز کے اطلاق کے ساتھ، بوائی، کھاد اور آبپاشی کے عمل میں جدید کاشتکاری کا ہدف حاصل کیا ہے.نتیجتاً، پارک کے کھیتوں میں کیمیائی کھادوں اور حشرہ کش ادویہ کے استعمال میں اوسطاً 10 فیصد کمی آئی ہے، اور پیداوار میں دیگر زون کے مقابلے میں 15 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے.اسی طرح چینی صدر نے اندرون منگولیا میں حہ تھاو آبپاشی کے علاقے کا بھی دورہ کیا۔ چین میں آبپاشی کے تین بڑے علاقوں میں سے ایک کے طور پر یہ علاقہ 7 لاکھ 69 ہزارہیکٹر سے زیادہ زمین کو سیراب کرنے کے لئے دریائے زرد سے پانی کا رخ موڑ رہا ہے۔اس آبپاشی پروجیکٹ کو 2019 میں عالمی ثقافتی ورثہ آبپاشی ڈھانچہ قرار دیا گیا تھا۔یہاں کا مانیٹرنگ سینٹر ڈیجیٹل ڈسپلے وال، بگ ڈیٹا سینٹر اور ڈیجیٹل سینڈ ٹیبل کے ساتھ ساتھ یومیہ پانی کی فراہمی کے لئے معلومات جمع کرنے، ڈیٹا تبادلہ کی سہولت پہنچانے اور پانی کے استعمال کے منصوبوں کے بارے میں معلومات پہنچانے کے لئے شیڈولنگ سسٹم سمیت دیگر سہولیات سے لیس ہے۔ یہ سینٹر آبپاشی منصوبے کے سائنسی انتظام کو بہتر بناتا ہے ، اور آبی وسائل کے استعمال کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شی جن پھنگ نے اس سینٹر کا خاص طور پر دورہ کیا اور آبپاشی نظام میں بہتری سے متعلق دریافت کرتے ہوئے اہم رہنما ہدایات جاری کیں۔

چین کی اعلیٰ قیادت کے نزدیک غذائی تحفظ بنیادی قومی مفادات میں شامل ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے متعدد مواقع پر لوگوں کے لیے مناسب خوراک کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔انہوں نے ہمیشہ یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ غذائی تحفظ کے حوالے سے چوکس رہا جائے، اور ملکی سطح پر اناج کی پیداوار، وافر پیداواری صلاحیت، معتدل خوراک کی درآمدات، اور تکنیکی مدد پر مبنی خود کفالت کے اصول پر عمل پیرا رہا جائے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے قومی اقتصادی اور سماجی ترقی اور سال 2035 تک کے طویل المیعاد مقاصد کے لیے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ (2021تا2025) کے خاکے میں غذائی تحفظ کی حکمت عملی کے نفاذ کو شامل کیا ہے۔اس خاکے میں اناج کے مکمل تحفظ اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور غذائی تحفظ سے متعلق قانون سازی کو فروغ دینے کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ملک نے 2021 میں خوراک کے زیاں کے خلاف قانون بھی منظور کیا، جس کا مقصد ایک طویل مدتی فریم ورک کی تشکیل ہے، جو قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔چینی کسانوں اور زرعی ماہرین کی کوششوں کی بدولت ملک میں زرعی پیداوار کی مشینی، انٹیلی جنٹ اور سبز ترقی کو تیز رفتاری سے فروغ دیتے ہوئے غذائی تحفظ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کی زرعی اور دیہی ترقی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین میں اناج کی پیداوار نے مسلسل 18 سالوں سے زرعی مشینری و آلات اور زرعی میکانائزیشن کی بھرپور مدد سے بمپر فصلیں حاصل کی ہیں جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے۔چین کی زرعی جدت کاری کی کوششیں جہاں ملک میں چینی عوام کی خوراک کی ضروریات کو احسن انداز سے پورا کر رہی ہیں وہاں عالمی سطح پر بھی فوڈ سیکیورٹی میں نمایاں مدد مل رہی ہے جو دنیا سے بھوک کے خاتمے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کی تکمیل میں ایک نمایاں خدمت ہے۔

Leave a Reply

Back to top button